سے پاک ہے۔ (1)یہ کہنا کہ اللہ پاک اُوپر ہے اسے عُلَما نے کفر لکھا ہے۔(2)اللہ پاک کی ذات کے تعلق سے اِس طرح کے مَسائل سمجھنے کے لیے دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی اِدارے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ”کُفریہ کلمات کے بارے میں سُوال جواب “ کا مُطالعہ کیجیے اِنْ شَآءَ اللّٰہ آپ کا اِیمان تازہ ہو جائے گا اور آپ کو سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ایسے کُفریات کا پتا چل جائے گا جو آج کل لوگوں میں رائج ہیں ۔
گماں سے گزرے گزرنے والے
سُوال:آپ نے فرمایا ہے کہ”اللہ پاک کو اوپر والا یا اللہ پاک عرش پر ہے “یہ نہیں کہنا چاہیے جبکہ ہم نے سُنا ہے مِعراج کی رات سرورِ کائنات صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم عرش پر اللہ پاک سےمُلاقات کے لیے تشریف لےگئے اور عرش اوپر ہی ہے تو اس کا کیا مَطلب ہے؟ (یوٹیوب کے ذَریعے سُوال)
جواب:پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اللہ پاک سے مُلاقات کے لیے عرش پر گئے یہ عوام کی بات ہے ۔یہ دُرُست ہے کہ سرکار صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم عرش پر گئے مگر اللہ پاک کا دِیدار کہاں ہوا اِس کا تذکرہ نہیں ہے۔اعلیٰ حضرت،امام اہلسنَّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:
خرد سے کہہ دو کہ سر جُھکا لے گماں سے گزرے گزرنے والے
پڑے ہیں یاں خود جہت کو لالے کسے بتائے کِدھر گئے تھے
(حدائقِ بخشش)
خرد کا معنیٰ ہے عقل اور سمجھ ،گمان یعنی خیال،جہت کا معنیٰ ہے سمت یا ڈائریکشن۔شعر کا مطلب یہ ہوا کہ عقل سے کہہ دو کہ اب ہتھیار ڈال دے سوچے نہیں کیونکہ گزرنے والے خیال سے بھی وَراءُ الوریٰ ہو گئے ہیں،بلکہ یہاں خود جہت اور سمت کو بھی لالے پڑ ے ہیں نہ اوپر نہ نیچے نہ دائیں نہ بائیں۔ اِس طرح پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اپنے سر کی آنکھوں سے اللہ پاک کی زیارت سے مُشَرَّف ہوئے ہیں۔کس طرح دیکھا؟ یا کیسے دیکھا؟ یہ باتیں سوچنے کی نہیں بلکہ مان لینے کی ہیں۔
________________________________
1 - درمختار، کتاب الصلاة،باب الامامة، ۲/۳۵۸ ماخوذاً دار المعرفة بیروت
2 - بحر الرائق، کتاب السیر، باب أحکام المرتدین،۵/۲۰۳کوئٹه