کرنے میں ىتىم اور غریب بچىوں کى دِل آزارى نہىں ہے؟
جواب:جہیز کی نمائش کرنے کو دِل آزارى نہىں کہہ سکتے۔ اگر ایسا ہو تو پھر بلڈنگ بنانا بھى دِل آزاری کا سبب ہو گا کہ جھگى میں رہنے والے کا دِل دُکھے گا بلکہ جھگى بنانا بھى منع ہو جائے گا کہ جو فٹ پاتھ پر پڑے ہىں،جن کے پاس جھگی بھی نہیں ان کا دِل ٹوٹ جائے گا،تو یُوں دُنىا کا نِظام ہى رُک جائے گا، لہٰذا اگر کسی نے اللہ پاک کی رضا کے لیے دِل جوئى اور دِیگر اچھی نیتوں کے ساتھ اچھا جہىز دىا، واہ وا اور حُبِّ جاہ(1) مقصود نہیں ہے اور وہ چار آدمىوں کو جہیز دِکھا بھی دیتا ہے تو اس پر کسى کى دِل آزارى کا حکم لگانا سمجھ مىں نہىں آ رہا۔ البتہ اس سے بچنا بہتر ہے ۔
نمک کے اِستعمال میں اِحتیاط
سُوال: نمک کے اِستعمال مىں کىا اِحتىاط کرنی چاہىے ؟
جواب:اللہ پاک کے فضل و کَرم مىں سے اىک نمک بھى ہے ۔یہ بہت بڑى نعمت ہے ۔اللہ پاک کى شان ہے کہ جس نعمت کى بندے کو زیادہ ضَرورت ہے وہ ىا تو سَستى کر دى ىا بالکل ہی مُفت کر دى ۔ نمک سے زىادہ ہوا کى ضَرورت ہے کہ اگر ہوا اىک مِنَٹ کے لىے بند ہو جائے تو بندے ڈھیر ہونا شروع ہو جائیں لیکن اللہ پاک نے ہوا بالکل مُفت کر دى ۔ نمک بھى ضَرورى ہے لیکن اس کى اتنی فراوانى اور کثرت ہے کہ ىہ سستا ہے۔ بہرحال ہر چىز کے اِستعمال میں اِعتدال ضَروری ہوتا ہے، ہر چیز کی اىک Limit(یعنی حَد) ہوتى ہے،Limit(یعنی حَد)سے جو بھى چىز زىادہ اِستعمال ہو گى تو وہ نقصان کرے گى، جیسے ہوا ضَرورى ہے لیکن اگر کسى کے مُنہ پر پائپ رکھ کر ہوا ڈالتے رہىں تو پھر کىا ہو گا ؟ىہ نعمت زحمت بن جائے گى۔اِسى طرح نمک ىقىنا ًنعمت ہے لیکن اِس کا بے تحاشا اِستعمال نقصان دہ ہے۔
اِنسانی جسم کے لیے نمک کی جتنى ضَرورت ہے تو وہ غِذاؤں کے ذَرىعے پوری ہو جاتى ہے جىسے پھل فروٹ مىں بھی نمک ہوتا ہے۔ روٹىن کے کھانے کے عِلاوہ اِضافى نمک جو لوگ کھاتے ہىں جىسے پکوڑے ،سموسے ،کباب اور نمکو وغیرہ توان چیزوں میں موجود نمک بَدن میں نمک کى مِقدار بڑھنے کا سبب بنتا ہے۔پھر اگر کھانا پىٹ بھر کر کھاتے ہیں تو اس سے
________________________________
1 - لوگوں میں شُہرت اور ناموری چاہنا حُبِّ جاہ کہلاتا ہے۔ (احیاء العلوم،کتاب ذم الجاہ والریاء،الشطر الاول فی حب الجاہ والشھرة،۳/۳۳۹ دار صادر بیروت)