Brailvi Books

قسط29: آنکھ پھڑکنا
5 - 24
پیار سے کسی کا نام بگاڑنا 
سُوال :  مىرا نام شوکت ہے لیکن مجھے پىار سے شوکى کہتے ہىں، کىا ایسا کرنا جائز ہے ؟ (SMS کے ذَریعے  سُوال) 
جواب : شوکت کے معنیٰ شان و شوکت اور  عزت کے ہیں ۔  (اِس موقع پر مَدَنی مذاکرے میں شریک مُفتی صاحب نے اِرشاد فرمایا : ) شوکى کہنے مىں کوئى حَرج نہىں ہے جبکہ سامنے والے کو بُرا محسوس نہ ہوتا ہو، یہاں نام بگاڑنے کى وہ صورت نہىں بنے  گى جس سے منع کىا گىا ہے ۔  ہاں اگر سامنے والے کو بُرا لگتا ہے تو پھر نام بگاڑنے کى ممانعت ہو گى ۔ 
مُقَدَّس نام ہرگز نہ بگاڑے جائیں
سُوال : بعض لوگ مُقَدَّس ناموں کو بھی بگاڑتے ہیں ، ایسا کرنا کیسا ہے ؟ (1) 
جواب : بعض اوقات مُقَدَّس نام ہوتے ہىں لیکن لوگ انہیں بگاڑ کر کچھ کا کچھ کر ڈالتے ہىں جىسے ہمارے مىمنوں مىں عَبْدُالرَّحْمٰن کو گجراتى اسٹائل میں ”ادرے مان“بولتے ہیں، ظاہر ہے نام کو بگاڑ کر کچھ کا کچھ کر ڈالا اور ”رَحْمٰن“ىہ اللہ پاک کا نام ہے لیکن اس مُقَدَّس نام کو بھى بگاڑ دیتے ہىں ۔  یُوں ہی عَبْدُاللہ کو عِبْدَاللہىا عَبْدُلبولتے ہىں ۔ عَبْدُل مىں تو چلو پھر بھى کچھ بچت ہے لیکن ”عِبْدَاللہ“کے پتا نہىں کیا معنىٰ بنتے ہىں؟عَبْد کا معنیٰ تو بندہ ہے مگر عِبْد کے نجانے کیا معنیٰ ہوں گے ؟ آمنہ نام کو امى اور  امىنہ نام کو امی یا املی کہتے ہیں ۔  عَبْدُالرَّزَّاق کتنا پىارا نام ہے مگر اسے  نَعُوْذُ بِاللّٰہ مِنْ ذٰلِکَ”رجاکڑو“ کہہ دیتے ہیں ۔ اِسی طرح اور بہت سے مُقَدَّس ناموں کو بگاڑ کر کچھ کا کچھ کرڈالتے ہىں، اِس سے ہر ایک کو بچنا چاہیے ۔ (2) قرآنِ کرىم مىں جو ممانعت آئی  ہے  : ( وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِؕ  )(پ۲۶، الحجرات : ۱۱) ترجمۂ کنز الایمان : ”اور ایک دوسرے کے بُرے نام نہ رکھو ۔ “اِس کی مثالىں یُوں دى گئى ہىں کہ کسى کو لمبا، ٹھگنا کہنا کہ ىہ نام بگاڑنا، بُرے اَلقابات اور بُرے ٹائىٹل دىنا 



________________________________
1 -    یہ سُوال شعبہ فیضانِ مَدَنی مذاکرہ کی طرف سے قائم کیا گیا ہے جبکہ جواب امیر اہلسنَّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا عطا فرمودہ  ہی ہے ۔  (شعبہ فیضانِ مدنی مذاکرہ) 
2 -    اصل نام پکارنے کے بجائے نامناسب ناموں مثلاً لمبو، ٹھگنو، کالُو!موٹُو!وغیرہ کہہ کر بُلانا سامنے والے کو تکلیف دے سکتا ہے ، اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِسنَّت مولانا شاہ امام احمد رضاخانرَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : کسی مسلمان بلکہ کافر ذِمّی کو بھی بلاحاجتِ شَرعیہ ایسے اَلفاظ سے پکارنا یا تعبیر کرنا جس سے اُس کی دِل شکنی ہو، اُسے اِیذاء پہنچے ، شَرعاً  ناجائز و حرام ہے ۔  اگر چہ بات فِیْ نَفْسِہٖ سچی ہو، فَاِنَّ کُلَّ حَقٍّ صِدْقٌ وَلَیْسَ کُلُّ صِدْقٍ حَقًّا (ہر حق سچ ہے مگر ہر سچ حق نہیں) ۔  (فتاویٰ رضویہ ۲۳ / ۲۰۴)