Brailvi Books

قسط29: آنکھ پھڑکنا
20 - 24
	کوئی بندہ کسی کو کچھ دے تو وہ لیتے ہوئے شرمائے گا اور چُھپاکر لے گا لیکن جسے مُصطَفٰے کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم  عطا فرمادیں تو وہ ڈنکے کی چوٹ پر کہے گا کہ یہ مجھے میرے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم  نے عطا فرمایا ہے ۔  یہی فرق ہے عام فقیر میں اور اس دَر کے فقیر میں تو ہم اِسی دَر کے فقیر ہیں ۔  
میں بڑا اَمیر و کبیر ہوں شہِ دوسرا کا اَسیر ہوں
دَرِ مُصطَفٰے کا فقیر ہوں  میرا رِفعتوں پہ نصیب ہے
	امیر و کبیر کا  مطلب بڑا مالدار، اَسیر کا مطلب قیدی اور رِفعتوں کا مطلب ہے بلندیاں، تو شِعر کا معنیٰ یہ  ہوا کہ میرا نصیب بلندیوں پر ہے کیونکہ میں دونوں جہاں کے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم  کا قیدی ہوں، ان کی محبت میں گرفتار ہوں اور ان کے دَر  کا فقیر یعنی بھکاری ہوں ۔  
دو عالَم میں بٹتا ہے صَدقہ یہاں کا
ہمیں اک نہیں ریزہ خارِ مدینہ
	یعنی ہم جو مدینے کے ٹکڑوں پر پَل رہے ہیں اس میں ہم اکیلے نہیں ہیں بلکہ ہمارے ساتھ دونوں جہاں کی مخلوق ہے جو مدینے کے ٹکڑوں پر پَل رہی ہے ۔  ہم سب بلکہ ہر عاشقِ رسول فقیر المدینہ ہے ۔ اللہ پاک ہمیں اسی پر قائم رکھے کہ ہم مُصطَفٰے کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم  کے ٹکڑوں سے دُور نہ ہوں ۔   
تىرے ٹکڑوں سے پلے غىر کى ٹھوکر پہ نہ ڈال
                         جھڑکىاں کھائىں کہاں چھوڑ کے صَدقہ تىرا	(حَدائِقِ  بخشش)
سائلو! دامن سخى کا تھام لو
سُوال : اِس شعر کی تشریح فرما دیجیے  : 
سائلو! دامن سخى کا تھام لو
کچھ نہ کچھ اِنعام ہو ہى جائے گا