دوسروں کی موت سے عِبرت حاصِل کیجیے
دوسروں کی موت اپنے لیے بہت بڑی عِبرت ہوتی ہے ۔ ہمارے اىسے بزرگانِ دِىن رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِیْن بھی گزرے ہىں کہ اگر وہ کسى کى تَدفىن کے لیے قبرستان جاتے تو وہ اپنی موت کو یاد کر کے اتنے رَنجیدہ ہو جاتے کہ کھانا پینا چھوڑ دیتے تھے ۔ حضرتِ سَیِّدُنا امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ اِرشاد فرماتے ہیں : اىک دور تھا کہ جب کوئى جنازہ جا رہا ہوتا تھا تو جنازے مىں جس کو دىکھو وہ مُنہ پر کپڑا ڈالے رو رہا ہوتا تھا اور اگر کوئی اَجنبى تَعزىت کرنا چاہتا تو اسے پتا نہىں چلتا تھا کہ وہ کس سے تَعزىت کرے ؟(1)یاد رہے ! وہ مَىِّت کے لىے نہىں بلکہ اس لیے روتے تھے کہ آج اس مَیِّت کو غُسل دىا ہے اور کفن پہناىا ہے اور یہ حرکت نہیں کر رہا اور اب اسے کندھوں پر اُٹھا کر قبرستان کی طرف چل دئیے ہیں تو کل ہمارے ساتھ بھی یہی مُعاملہ ہونا ہے ۔ آجکل جنازے میں شریک لوگوں کو دیکھ کر پتا چل جاتا ہے کہ کس سے تَعزیت کرنی ہے کیونکہ جس سے تَعزیت کرنا ہوتی ہے صِرف وہی رُو رہا ہوتا ہے یا غم کی وجہ سے اس کا مُنہ اُترا ہوتا ہے ۔ پہلے لوگ جنازے سے عِبرت حاصِل کرتے تھے اس لیے جنازے کے ساتھ چلتے ہوئے کچھ پڑھنے پڑھانے کا سِلسِلہ بھی نہیں ہوتا تھا پھر جب عُلَمائے کِرام نے دیکھا کہ لوگ غافل ہو گئے ہیں اور جنازے کے ساتھ چلتے ہوئے اِدھر
________________________________
1 - احیاء العلوم، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، ۵ / ۲۳۵ ماخوذاً دار صادر بيروت