کرے مثلاً تاجِر کے پاس جب گاہک جائے گا تو ایسی چکنی چپڑی پھسلانے والى باتىں کرے گا جىسے اس سے بڑھ کر اَخلاقِ کرىمہ کا کوئى مظہر ہى نہىں ہے لیکن جہاں سودا خَراب ہوا اورگاہک نے اُمّىد سے کم دام مىں مانگ لىا تو تاجِر کے نقلى اَخلاق کا پَردہ اُٹھ جاتا ہے اور پھر گاہک کو اِس طرح کی کَھری کَھری باتیں سُناتا ہے کہ مىاں! چھولے کھاؤ چنے کھاؤ ۔ تم کہاں ہو؟کچھ پتا ہے ؟ىہ پان کى دُکان نہىں ہے وغیرہ وغیرہ ۔
بَداخلاقی بعض مذہبی اَفراد میں بھی نظر آتی ہے مثلاً اچھا خاصا مذہبى آدمى ہو گا، لوگ اس کے ہاتھ چُوم رہے ہوں گے لیکن ذَرا کوئى مِزاج کے خلاف بات ہو جائے تو اپنی سارى پارسائى اور تَصَوُّف کى جتنی مَنزلىں بھى عُبُور کى ہوتى ہىں ، سب کو پَسِ پُشت ڈال کر ایسا گَرجتا اور بَرستا ہے کہ مَنظر دىکھنے والا ہوتا ہے ۔ اِس وقت ہر اىک اپنے اپنے طور پر اَخلاقى پستى کا شِکار نظر آ رہا ہے ۔ بطورِ مُبالغہ کہوں تو مُعاشرے مىں خوش اَخلاق اب نظر نہیں آتے ۔ خوش اَخلاق ىا تو مَزاروں مىں چلے گئے ىا کہىں غاروں مىں چُھپے ہوئے ہىں ۔ بہرحال ىہ سب شىطان کے وار ہىں ۔ اللہ پاک کرے کہ ہم واقعى اَخلاق والے بن جائىں ۔ گھر میں، بازار مىں، کاروبار میں، دوستوں اور بھائى بہنوں سب کے ساتھ ہم اچھے اَخلاق سے پىش آئىں ۔ ہمارا ظاہر اور باطِن اىک ہوجائے ۔ ورنہ خالى مُسکرا کر ہاتھ مِلا لىنے کا نام حُسنِ اَخلاق نہىں ہے ، حُسنِ اَخلاق کى دُنىا بہت وَسىع ہے ۔