اِحتىاط اچھى ہے ۔ گجراتی زبان کی کہاوت ہے ”جیتنا نر سَدا سکھى ىعنى جو محتاط ہوتے ہىں وہ ہمىشہ سکھی رہتے ہىں ۔ “میرے پاس لوگ شہد بھى بھىجتے ہىں ابھی بھی میرے پاس کسی نے شہد کى ایک بوتل بھیجی ہے اور ساتھ میں پرچی پر یہ پیغام بھی لکھا ہوا تھا کہ اگر آپ کو یہ موافق ہو تو دوبارہ مجھے اِطلاع دے دیجیے ۔ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ چیزیں لانے والوں کی پہچان تو ہوتی ہے مگر یہ پتا نہیں ہوتا کہ انہیں کس نے دی ہیں؟عین ممکن ہے کہ پنچاب، بلوچستان، بابُ الاسلام (سندھ)اور دِیگر ممالک سے آنے والے اسلامی بھائیوں نے مجھ تک پہنچانے کے لیے انہیں دی ہوں تو یوں مجھ تک چیزیں ڈائریکٹ نہیں بلکہ واسطے کے ساتھ پہنچتی ہیں ۔ اب اگر مجھ تک پہنچنے والی چیز صاف ستھری بھی تھی تو جب یہ کسی ذَریعے سے پہنچی تو رِسکی ہو گئی لہٰذا مہربانی کر کے اس طرح کی چیزیں مجھے نہ بھیجا کریں کیونکہ آپ تو دُودھ کے دُھلے ہیں اور آپ کی طرف سے کوئی مسئلہ نہیں مگر جب مختلف ذَرائع سے آپ کی بھیجی ہوئی چیز میرے پاس آئے گی تو اُن کے پاس رُکے گی مثلاً فیضانِ مدینہ میں کسی کے پاس رُکے گی اور جتنا عرصہ کسی کے پاس رُکے گی تو نہ جانے کس کس کی اس پر نظر ہو گی کہ یہ چیز خاص فُلاں کے لیے جا رہی ہے تو یوں اس میں آزمائش ہو سکتی ہے ۔ اب اس وضاحت کے بعد کسی کو مایوس بھی نہیں ہونا چاہیے کہ ہم نے یہ بھیجا تھا وہ بھیجاتھا اس کا کیا حشر ہوا ہو گا؟ کیونکہ میں نے یہ وضاحت پہلی بار نہیں کی بلکہ اس سے پہلے کئی بار