Brailvi Books

قسط20: اِنتقال پرصَبر کا طریقہ
41 - 45
حضرتِ سیِّدُنا على اصغر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے مىدانِ کربلا مىں صِرف چھ ماہ کی عمر میں جامِ شہادت نوش  کیا تھا تو ان کے والدِ محترم، امام عالى مقام، امام حسىن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ان کى اَمّى جانرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے صبر ہی کىا تھا ۔  ان سے تَصَوُّر بھى نہىں کیا جا سکتا  کہ کوئى اىسى مَعَاذَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  بے صبری والی بات زبان پر لائیں ۔  امام حسىن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے لختِ جگر اور شہزادے حضرتِ سیِّدُنا على اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بھى مىدانِ کربلا مىں عین جوانی میں تىن دِن بھوکے پىاسے رہ کر جامِ شہادت نوش کیا ۔  بھانجے بھتىجے بھی شہىد ہوئے اور پھر خود آگے بڑھ  کر شہادت کو گلے لگایا لیکن ان تمام مَصائِب وآلام کے باوجود بھی اىک لفظ شکوے کا زبان پر نہ لائے بلکہ ان کے دِل و دماغ مىں بھى کہىں بے صبرى کا شائبہ تک نہىں آ سکتا کیونکہ امامِ حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ صحابى، ابنِ صحابى (حضرتِ علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے شہزادے )اور نبىٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے نواسے تھے  ۔ (1)ىہ صبر نہىں کرىں گے تو کون صبر کرے گا؟اگر کوئی کہے کہ ہم ان جىسے نہىں ہو سکتے لہٰذا ہم کیسے صبر کریں؟تو ایسوں سے عرض ہے کہ بے شک ہم ان جیسے کبھى بھى نہىں ہو سکتے لىکن ا ن کے اس کِردار مىں ہمارے لیے دَرس تو ہے  لہٰذا  ہمىں ان کے نقشِ قدم پر تو چلنا ہى ہے اور ہر حال میں صبر ہی کرنا ہے کہ اسی کا ہمیں حکم ہے  ۔ 



________________________________
1 -    البدایة  والنهایة، فصل فی یوم مقتل الحسین رَضِیَ اللّٰه عَنْه، ۵ / ۷۱۱  دار الفکر بیروت