Brailvi Books

قسط20: اِنتقال پرصَبر کا طریقہ
29 - 45
نے ہسپتال سے بھائی کی لاش لی اور اسی رات گھر پہنچ آئے ۔ ورنہ ہمارا خیال تھا کہ رات وہیں گزرے گی کیونکہ ہم لوگ عصر یا مغرب کی نماز پڑھ کر نکلے تھے اِسی وجہ سے میرے ساتھ آنے والے سماجی کارکن نے اپنے ساتھ چادر وغیرہ بھی رکھ لی تھی ۔  جب لاش ملی تو گھر لے جانے جیسی نہیں تھی کیونکہ وہ بالکل کٹ چکی تھی تو ہم نے کسی سماجی اِدارے میں غسل کی تَرکیب بنائی ۔  جب لاش کو کھولا گیاتو مجھ سے اپنے بھائی کی یہ حالت  دیکھی نہیں گئی کہ ٹانگ الگ کٹی ہوئی ہے (گردن کی طرف اِشارہ کرکے فرمایا)ادھر پہیا چڑھ جانے کی وجہ سے وہ حصہ کٹ چکا ہے  ۔ وہاں کسی سماجی کارکن کا بچہ بھی تھا جو بہت اُچھل کود کر رہا تھا اس نے اپنے والد کو کہا کہ”ابو! وہ دیکھو گردن کٹی ہوئی ہے ، فُلاں چیز یوں کٹ گئی ہے  ۔ “اس کا یہ انداز دیکھ کر میرا ذہن بنا کہ یہ لوگ رات دن  اِس طرح کے حالات دیکھتے ہوں گے جیسے ہم مُرغیاں اور بکرے وغیرہ  کٹے ہوئے دیکھتے ہیں اور  ہمیں کچھ نہیں ہوتا اِسی طرح یہ بچہ بھی روزانہ ایسی چیزیں دیکھ کر عادی ہو چکا ہو گا ۔  
خود کو ہلاکت پر پیش کرنے کی شَرعاً اِجازت نہیں
اِسی طرح قبرستان میں جو گورکن وغیرہ ہوتے ہیں یہ لوگ قبروں کے  پاس  لیٹ جاتے ہیں، ساری ساری رات وہیں گھومتے ہیں، بعض اوقات جوا وغیرہ بھی کھیل رہے ہوتے ہیں، ان کو قبرستان میں ڈر نہیں لگتا ۔ لیکن ہمیں اگر کوئی