دے دیجیے گا تو عین ممکن ہے وہ پَرچی ان تک نہ پہنچ سکے ۔ اگرچہ میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ ایسی چیز کو ایسی جگہ رکھوں جہاں سے مجھے دیکھ کر یاد آ جائے ، مگر گھر میں چھوٹے بچے بھی ہوتے ہیں وہ اُٹھا کر کسی دوسری جگہ رکھ سکتے ہیں یوں وہ چیز متعلقہ شخصیت تک پہنچنے میں کافی دیر لگ سکتی ہے ۔ لہٰذا کسی بھی شخصیت تک کوئی چیز پہنچانی ہو تو اس کی آل و اولاد کے ذَریعے نہ پہنچائی جائے ۔ ممکن ہے لوگ یہ سوچ کر ان کے ذَریعے پہنچانے کی کوشش کرتے ہوں کہ یہ جلدی پہنچا دیں گے مگر وہ لینے والا بھی لوگوں سے پیغامات وُصُول کر کر کے عادی ہو چکا ہوتا ہے اور یہ اس کے روز کا کام بن جاتا ہے لہٰذا اب وہ یہ پیغام وغیرہ پہنچانے میں سُستی کرتا ہے ۔ جیسے ہم کسی مریض کو دیکھیں گے تو بہت زیادہ حیرانگی کا اِظہار کریں گے کہ ”بے چارے کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے ، خون بہہ رہا ہے ، بے چارے کا سر پھٹ چکا ہے “ عین ممکن ہے یہ دیکھنے کے بعد ہماری نیند ہی اُڑ جائے ۔ لیکن جو لوگ اِس طرح کے زخمیوں اور مریضوں کی Dressing (یعنی پٹی)کرتے ہیں یا اس کام کے Surgeonیا Doctor ہوتے ہیں وہ بالکل عادی ہو جاتے ہیں ۔ یہ میرا تجربہ ہے کہ جو شخص جس چیز کا عادی ہو جاتا ہے وہ چیز اس کے لیے کوئی خاص اَہمیت نہیں رکھتی ۔
امیرِ اہلسنَّت کے بھائی کا حادثے میں اِنتقال
میرے بڑے بھائی(مَرحوم عبدُ الغنی) کیاللہ پاک بے حساب مغفرت فرمائے ،