دھوپ کى تَمازَت (یعنی شِدَّت کی گرمی) ہو گى نہ گرمىاں نہ سردىاں، کوئى تکلىف دہ معاملہ ہی نہیں ہو گا صرف لُطف ہى لُطف اور مَزہ ہى مَزہ ہو گا اور اِنْ شَآءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے جَلوے ہى جَلوے ہوں گے ۔
کفریہ خیالات آنے سے کفر نہیں ہو جاتا
سُوال : کىا کفریہ خىالات آنے سے بھى کفر ہو جاتا ہے ؟
جواب : اگر کوئى کفریہ خىال آتا ہے اور بندہ اُسے ٹالتا ہے تو یہ کفر نہیں ہو گا ۔ (1) خیالات اور وسوسے تو سب کو آتے ہىں ۔ اللہپاک ہم سب کو بُرے وسوسوں سے محفوظ رکھے کہ وہ تکلىف دہ ہوتے ہىں ۔ (2)
________________________________
1 - 1فتاویٰ ھندیة، کتاب السیر، الباب التاسع فی احکام المرتدین، ۲ / ۲۸۳ ماخوذاً دار الفکر بیروت
2 - 2کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب صفحہ 423 پر ہے : ذِہن میں کُفْرِیَّہ خیالات کا آنااور انہيں بيان کرنے کو بُرا سمجھنا عَین اِیمان کی عَلامَت ہے کیونکہ کُفرِیّہ وساوِس شَیْطان کی طرف سے ہوتے ہیں اور وہ لَعِیْن مَردُود چاہتا ہے کہ مسلمان سے اِیمان کی دولت چھین لے ۔ حضرتِ سیِّدُنا ابوہُریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روايت ہے ، نبیِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی خدمتِ سراپا عظمت میں بعض صَحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے حاضِر ہو کر عرض کی : ہمیں ایسے خَیالات آتے ہیں کہ جنہیں بَیان کرنا ہم بَہُت بُرا سمجھتے ہیں ۔ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے اِرشاد فرمایا : کیا واقِعی ایسا ہوتا ہے ؟اُنہوں نے عَرض کی : جی ہاں ۔ اِرشاد فرمايا : يہ توخالِص ايمان کی نشانی ہے ۔ (مُسلِم، کتاب الایمان، باب بیان الوسوسة فی الایمان…الخ، ص۷۴، حدیث : ۳۴۰) صَدرُ الشَّریعَہ، بَدرُ الطَّريقہ، حضرتِ علّامہ مَولانا مفتی محمد امجد علی اَعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں : کُفری بات کا دِل میں خیال پیدا ہوا اور زَبان سے بولنا بُرا جانتا ہے تو یہ کُفر نہیں بلکہ خاص اِیمان کی عَلامَت ہے کہ دِل میں اِیمان نہ ہوتا تو اسے بُراکیوں جانتا ۔ (بہارِشریعت، ۲ / ۴۵۶، حصّہ : ۹ مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی)