Brailvi Books

قسط 13:گُلاب کی پتّیوں پر پاؤں رکھنا کیسا؟
4 - 30
پتھر (Sacred Stone) کو اُٹھائىں ۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور جب  حجرِ اَسود اپنے مقام تک پہنچ گىا تو حضور ِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے اپنے بَرکت والے ہاتھوں سے اس مُقَدَّس پتھر کو اُٹھا کر اس کى جگہ پر رکھ دىا ۔ (1) 
اچھی اور بُری دُنیا کی پہچان  کا طریقہ
سُوال: دُنىا کے مُعاملات کى خَرابى تو ہم سب جانتے ہىں، اب اس دُنىا مىں رہتے ہوئے اس سے کىسے بچىں؟(مَدَنی صحرا ، مانسہرہ، خىبر پختونخواہ  سے  سُوال )
جواب: بے شک دُنىا اچھى نہىں بلکہ خَراب ہے ۔ اب خَراب دُنیا سے مُراد کون سى دُنىا ہے تو اس کی پہچان کا اىک آسان فارمولا (یعنی قاعدہ کلیہ)ىہ ہے کہ جس دُنىوی معاملے سے آخرت کو نقصان پہنچے تو وہ خراب ہے اور دُنىا کا جو معاملہ آخرت کو فائدہ پہنچائے تو وہ اچھا ہے ، مثلاً ماں باپ بھى دُنىا مىں ہىں لیکن ماں باپ کى اِطاعت و فرمانبردارى کرکے ہم جنَّت حاصِل کر سکتے ہىں تو دُنىا کا ىہ معاملہ اچھا ہے ۔  ىہ وہ دُنىا  نہىں جس کی مَذَمَّت بیان کی گئی ہے ۔  اِسى طر ح بال بچوں کى پَرورش کرنا ، رِزقِ حَلال اس لىے حاصِل کرنا کہ خود کو سُوال سے بچائے ، اپنے ماں باپ اور بال بچوں کا پىٹ بھرے ، ان کى خِدمت کرے ، راہِ خُدا مىں خَرچ کرے تو ان اچھی نیتوں سے کمائی کرنا خراب دُنىا والا حصّہ نہىں ۔ بہرحال یہ مَدَنی پھول ذہن مىں رکھىے کہ دُنىا کا جو معاملہ آخرت کو نقصان پہنچائے تو وہ 



________________________________
1 -    سيرة ابنِ هشام، حدیث بنیان الکعبة...الخ، ص۷۷-۷۹  ملتقطاً دار الکتب العلمیة بیروت