بار کھانا تناول فرماتے ۔ اب تو فوڈ کلچر کا دور ہے ، ہر وقت لوگ جانوروں کی طرح کھاتے رہتے ہىں، گویا اِنسانوں اور جانوروں کے کھانے کا مقابلہ ہے کہ دونوں میں کون زىادہ کھاتا ہے ۔ بَہرحال اگر کوئى پىٹ بھر کر کھاتا ہے تو وہ گناہگار نہىں ہے ۔ ہاں اتنا کھا لیا کہ ظَنِّ غالِب ہے کہ اب مَزىد کھاؤں گا تو پىٹ خَراب ہو جائے گا اور بىمار ہو جاؤں گا تو ىہ جو مزىد کھا رہا ہے ىہ حرام ہے ۔ (1) اگر کسى کمزور شخص کے لیے سحرى میں کم کھانے کی وجہ سے دِن میں روزہ رکھنا مشکل ہو جاتا ہے ، اس لىے وہ پىٹ بھر کر کھاتاہے تا کہ روزہ پورا کر سکے تو اس کا یہ پىٹ بھر کر کھانا بھی کارِ ثواب ہے ۔ اِسی طرح محنت مزدورى کے کئی اىسے کام ہوتے ہىں کہ اگر بندہ کم کھائے گا تو وہ کام کر نہىں پائے گا تو بھلے پیٹ بھر کر کھا لے مگر اتنا نہ کھائے کہ بىمار پڑ جائے ۔ حدىثِ پاک مىں ہے : بھوک کے تین حصّے کر لیے جائیں ایک حِصّہ غِذا، ایک حِصّہ پانی اور ایک حِصّہ سانس کے لیے ۔ (2) اگر کوئی اِس پر کاربند ہو جائے تو اِنْ شَآءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نہ تو وہ کمزور ہو گا اور نہ ہی بىمار پڑے گا ۔ کم کھانے کی عادت بنانے کے لیے تھوڑا تھوڑا کھانا کم کیا جائے ، اگر کوئی ایک دَم کھاناکم کر دے گا تو اسے کمزوری محسوس ہو گی ۔
________________________________
1 - بہارِ شریعت، ۳ / ۳۷۴، حصّہ ۱۶ مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی
2 - شُعَبُ الایمان، باب فی المطاعم والمشارب...الخ، الفصل الثانی فی ذم كثرة الاكل، ۵ / ۲۸، حدیث: ۵۶۵۰ دارالکتب العلمیة بیروت