برباد ہوگیا ، تو پھر ہر سُوال پر منہ سے یِہی نکلے گا: ھَیْھَاتَ ھَیْھَاتَ لَا اَدْرِی(ہائے افسوس ! ہائے افسوس! مجھے تو کچھ نہیں معلوم ) ہائے! ہائے! جب سے آنکھ کھلی T.V.پر نظر تھی، جب سے کانوں نے سنا تو فلمی گانے ہی سنے، مجھے کیا معلوم خدا کیا ہے؟ مجھے کیا پتا دین کیا ہے؟ میں نے تو دنیا میں اپنی آمد کا مقصد صِرف اِسی کو سمجھا تھا کہ بس جیسے بن پڑے مال کماؤ اور بیوی بچّوں کو نبھاؤ۔ اگر کبھی کسی نے میری آخِرت کی بہتری کی خاطِر مجھے سنّتوں بھرے اجتماع میں شرکت یا مَدَنی قافِلے میں سفر کی دعوت دی بھی تو یہ کہکرٹال دیا تھاکہ سارا دن کام کرکرکے تھک جاتا ہوں ، وَقت ہی نہیں ملتا ۔ اسلامی بھائیو! جیتے جی تو یہ جواب چلتا رہے گا، کاروبار چمکتا رہے گا، اور بینک بیلنس بڑھتا رہیگا لیکن یاد رکھئے!
سیٹھ جی کو فِکر تھی اِک اِک کے دس دس کیجئے
موت آپہنچی کہ مسٹر! جان واپَس کیجئے
بہرحال جس کا ایمان برباد ہوچُکا تھا اُس سے آخِری سُوال کرلینے کے بعدجنّت کی کِھڑکی کُھلے گی اور فوراً بند ہوجائیگی پھرجہنَّم کی کھِڑکی کُھلے گی اور کہا جا ئیگا: اگرتُونے دُرُست جواب دیے ہوتے تو تیرے لئے وہ جنّت کی کھِڑکی تھی۔ یہ سن کراُسے حسرت بالائے حسرت ہوگی، جہنَّم کی طرف دروازے سے اُس کو گرمی اور لَپَٹ پہنچے گی، اُسے آگ کالباس پہنایا جائے گا، اُس کے لئے آگ کا بستر بچھایا جائے گا، اس پر عذاب دینے کے لیے دو فرشتے مقرر ہوں گے، جو اندھے اور بہرے ہوں گے، ان کے ساتھ لوہے کاگُرز ہو گا کہ