ڈاکے زیادہ تر مالداروں ہی کی کوٹھیوں پر پڑتے ہیں ، عُموماً مالداروں ہی کے بچّے اِغوا کئے جاتے ہیں ، دھاڑِیَل (ڈاکو)چِٹھیاں بھیج کر سرمایہ داروں ہی سے بھاری رقمیں طلب کرتے ہیں ، فی زمانہ دولت کی کثرت سے سُکونِ قلب ملنا توکُجا اُلٹا بہت سو ں کاچَین بربادہوا جاتا ہے، پھر بھی حیرت ہے کہ لوگ دولت کی جستجو میں مارے مارے پھرتے اورحلال حرام کی تمیز اٹھا دیتے ہیں ۔
جُستُجو میں کیوں پھریں مال کی مارے مارے
ہم تو سرکار کے ٹکڑوں پہ پلا کرتے ہیں
مالداریاں اور بیماریاں
بڑے بڑے دولت مند دیکھے ہیں ، جو طرح طرح کی پریشانیوں میں مبتَلا ہیں ، کوئی اولاد کے لئے تڑپتا ہے، کسی کی ماں بیمار ہے، کسی کا باپ مر یض تو کوئی خود مُوذی بیماری میں گرِ فتار ہے، کتنے مالدار آپ کو ملیں گے جو ’’ ہارٹ اٹیک ‘‘ سے دوچار ہیں ، کئی شُوگر کی زیادتی کا شکارہیں اور بیچارے میٹھی چیز نہیں کھا سکتے۔طرح طرح کی کھانے کی اَشیاء سامنے موجود مگراَرَب پتی سیٹھ صاحِب چکھ تک نہیں سکتے۔ بے چارے دولت و جائیداد کے تصوُّر سے دل بہلاسکتے ہیں ، پھر بھی دولت کا نشہ عجیب ہے کہ اُترنے کا نام ہی نہیں لیتا! یقین جا نئے! حلال و حرام کی پرواہ کئے بِغیردَھن کماتے چلے جانا صِرف اورصرف نادان انسان کی دُھن ہے، اتنا نہیں سوچتا کہ آخِر اتنی دولت کہاں ڈالوں گا؟ فُلاں