’’ ابّا جان ! کل جُمعرات ہے لہٰذا استاد صاحِب پورے ہفتے کے اَسباق کا امتِحان لیں گے میں نے پڑھائی پر توجُّہ نہیں دی، کل مجھے مار پڑے گی۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے بچّہ ’’ ہائے ہُوں ، ہائے ہُوں ‘‘ کرنے لگا۔اِس پر والِد صاحِب کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اپنے نفس کو مخاطَب کرکے کہنے لگے: اِس بچّے کو صرف ایک ہفتے کا حِساب دینا ہے اور استا د کو چَکما(یعنی دھوکا) بھی دیا جا سکتا ہے اس کے باوُجُودیہ رورہا ہے اور مارے خوف کے اسے نیند نہیں آرہی اور آہ! آہ! آہ! مجھے تو پُوری زندَگی کا حسا ب اُس واحدِ قھّارجَلَّ جلالُہٗ کو دینا ہے جسے کوئی چَکما (یعنی دھوکا) نہیں دے سکتا ، مجھے قِیامت کا امتِحان درپیش ہے مگر میں غافِل ہوکر سورہا ہوں ، آخِرمجھے کوئی خوف کیوں نہیں آرہا! ۔( دُرَّۃ النّاصِحین ص۲۹۵بِتَغیُّر)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اِس حکایت میں ہمارے لئے عبرت کے مُتَعَدَّد مَدَنی پھول ہیں ، آپ بھی غور فرمائیے میں بھی سوچتا ہوں ۔ایک بچّہ ، اُس کی سوچ اور اس کے والِد کی مَدَنی سوچ دیکھئے! بچّہ مدرَسے کے ’’ حساب ‘‘ کے خوف سے رورہا ہے اورباپ قِیامت کے حساب کی سختی کو یاد کرکے آبدیدہ ہے۔
کریم! اپنے کرم کا صدقہ لئیمِ بے قَدر(1) کو نہ شرما
تُو اور گدا سے حساب لینا گدا بھی کوئی حِساب میں ہے
(یہ اعلیٰ حضرتکا مَقطع ہے، دونوں جگہ رضاؔ کی جگہ سگِ مدینہ عفی عنہ نے اپنی نیَّت سے ’’ گدا ‘‘ کر دیا ہے)
________________________________
1 - لئیمِ بے قدر یعنی نِکمّا کمینہ