وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاموَ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاکے پاس پہنچ کر کہا کہ میں تمہیں ’’ شَجَرِخُلد ‘‘ بتادوں ، حضرتِ سیِّدُنا آدمصَفِیُّ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے منع فرمایا توشیطان نے قسم کھائی کہ میں تمہارا خیر خواہ (یعنی بھلائی چاہنے والا) ہوں۔ اِنہیں خیال ہوا کہ اللّٰہ پاک کی جھوٹی قسم کون کھا سکتا ہے! یہ سوچ کر حضرتِ سیِّدَتُنا حوّا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَانے اِس میں سے کچھ کھایا پھر حضرت سیِّدُناآدم صَفِیُّ اللّٰہعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو دیا انہوں نے بھی کھا لیا۔ (مُلَخَّص ازتفسیرعبد الرّزاق ج۲ص۷۶) جیسا کہ پارہ 8 سُوْرَۃُ الْاَعْرَافْکی آیت20 اور 21 میں ارشاد ہوتا ہے:
فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّیْطٰنُ لِیُبْدِیَ لَهُمَا مَاوٗرِیَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْاٰتِهِمَا وَ قَالَ مَا نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَیْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِیْنَ (۲۰) وَ قَاسَمَهُمَاۤ اِنِّیْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیْنَۙ (۲۱) ترجَمۂ کنزالایمان: پھر شیطان نے ان کے جی میں خطرہ ڈالا کہ ان پر کھول دے ان کی شَرم کی چیزیں جو ان سے چُھپی تھیں اور بولا: تمہیں تمہارے ربّ نے اِس پیڑ سے اِسی لئے مَنع فرمایا ہے کہ کہیں تم دو فِرِشتے ہوجاؤ یا ہمیشہ جینے والے اور ان سے قَسَمکھائی کہ میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں ۔
صدرُ الافاضِل حضرتِ علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِیتفسیر خَزائنُ العِرفانمیں لکھتے ہیں : معنٰی یہ ہیں کہ اِبلیس مَلعُون نے جُھوٹی قسم کھا کر حضرتِ ( سیِّدُنا) آدم (عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام) کو دھوکا دیا اور پہلا جھوٹی قسم کھانے