قسم کھائے گا تو وہ یا توسچّاہوگا یاپھر جھوٹا، اگر سچّا ہوگا تو کوئی حَرَج نہیں اور اگرجُھوٹا ہوگا تو اُس نے وہ قسم اپنے خیال کے مطابِق اگرسچّی کھائی تھی تو اب بھی حرج نہیں یعنی گناہ بھی نہیں اور کفَّارہ بھی نہیں ہا ں اگراسے پتا تھا کہ میں جھوٹی قسم کھا رہا ہوں تو گنہگار ہوگا مگر کفّارہ نہیں ہے ، اور اگر اس نے آیَندہ کیلئے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قَسَم کھائی تو اگر وہ قسم پوری کردیتا ہے تو فَبِھا (یعنی خوب بہتر) ورنہ کَفّارہ دینا ہوگا اوربعض صورَتوں میں قسم توڑنے کی وجہ سے گنہگار بھی ہوگا۔ (ان صورَتوں کی تفصیل آگے آرہی ہے)
جھوٹی قَسم کَھانا گناہِ کبیرہ ہے
رسولِ بے مثال، بی بی آمِنہ کے لال صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ عالیشان ہے: ’’ اللہ عَزَّ وَجَلَّکے ساتھ شرک کرنا، والِدَین کی نافرمانی کرنا ، کسی جان کوقَتل کرنا اورجُھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہ ہیں ۔ ‘‘ (بُخاری ج۴ص۲۹۵حدیث۶۶۷۵)
سب سے پہلے جھوٹی قَسم شیطان نے کھائی
حضرتِ سیِّدُنا آدم صَفِیُّ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے شیطان مردُود ہوا تھا لہٰذا وہ آپ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو نقصان پہنچانے کی تاک میں رہا۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّنےحضراتِ سیِّدَینا آدم و حَوّا عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاموَ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے فرمایا کہ جنّت میں رہو اور جہاں دل کرے بے رَوک ٹَوک کھاؤاَلبتَّہ اِس ’’ دَرَخت ‘‘ کے قریب نہ جانا۔ شیطان نے کسی طرح حضراتِ سیِّدَینا آدم و حَوّاعَلٰی نَبِیِّنا