(یعنی نقصان) پہنچانے کے لئے قسم کھائے پس بخدا اُس کو ضَر ردینا اور قَسم کو پورا کرناعِندَ اللّٰہ (یعنی اللّٰہ کے نزدیک ) زیادہ گناہ ہے اِس سے کہ وہ اس قسم کے بدلے کفّارہ دے جو اللہ تَعَالٰی نے اس پر مقرَّر فرمایا ہے۔ (بُخاری ج۴ص ۲۸۱ حدیث۶۶۲۵، فتاوٰی رضویہ ج۱۳ ص ۵۴۹)
مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنَّانِاس حدیثِ پاک کے تَحت فرماتے ہیں : یعنی جو شخص اپنے گھر والوں میں سے کسی کا حق فوت (یعنی حق تلفی) کرنے پر قسم کھالے مَثَلاً یہ کہ میں اپنی ماں کی خدمت نہ کروں گا یا ماں باپ سے بات چیت نہ کروں گا، ایسی قسموں کا پورا کرنا گناہ ہے ۔اس پر واجِب ہے کہ ایسی قسمیں توڑے اور گھر والوں کے حُقُوق اداکرے، خیال رہے یہاں یہ مطلب نہیں کہ یہ قسم پوری نہ کرنا بھی گناہ مگر پوری کرنا زیادہ گُناہ ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ایسی قسم پوری کرنا بَہُت بڑا گناہ ہے ، پوری نہ کرنا ثواب، کہ اگرچِہ ربّ عَزَّ وَجَلَّ کے نام کی بے اَدَبی قسم توڑنے میں ہوتی ہے اسی لیے اس پر کفَّارہ واجِب ہوتا ہے مگر یہاں قسم نہ توڑنا زیادہ گناہ کامُوجِب ہے۔
(مراٰۃ المناجیح ج۵ص۱۹۸مُلَخَّصاً)
طَلَاق کی قَسَم کھانا کِھلانا کیسا؟
کسی سے طَلَاق کی قسم لینا منافِق کا طریقہ ہے مَثَلاً کسی سے کہنا: ’’ قسم کھاؤکہ فُلاں کام میں نے کیا ہوتو میری بیوی کو طَلَاق۔ ‘‘ چُنانچِہ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولاناشاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن ’’ فتاوٰی رضویہ ‘‘ جلد13 صَفْحَہ 198 پرحدیثِ پاک نَقل کرتے ہیں : مُؤمِن طَلَاق کی قسم نہیں کھاتا اور طلاق کی قسم نہیں لیتا مگر مُنافِق۔ (اِبنِ عَساکِر ج ۵۷ ص۳۹۳)