قسم ! میں کل تمہارا سارا قَرض ادا کردوں گا ‘‘ تو یہ قسم ہے۔
قَسَم کی تین اَقسام
قسم تین طرح کی ہوتی ہے: (ا) لَغو (۲) غَمُوس (۳) مُنعَقِدہ ۔
{۱} لَغْویہ ہے کہ کسی گزرے ہوئے یاموجودہ اَمر (یعنی مُعامَلے ) پر اپنے خیال میں (یعنی غَلَط فہمی کی وجہ سے) صحیح جان کر قسم کھائے اور درحقیقت وہ بات اس کے خلاف (یعنی اُلَٹ ) ہو ، مَثَلاً کسی نے قسم کھائی : ’’ اللہ عَزَّ وَجَلَّکی قسم ! زَیدگھر پر نہیں ہے ‘‘ اور اس کی معلومات میں یِہی تھا کہ زید گھر پر نہیں ہے اور اِس نے اپنے گُمان میں سچّی قسم کھائی تھی مگر حقیقت میں زید گھر پر تھا تو یہ قسم ’’ لَغو ‘‘ کہلائے گی ، یہ مُعاف ہے اور اس پر کفّارہ نہیں {۲} غَمُوس یہ ہے کہ کسی گزرے ہوئے یاموجودہ اَمر (یعنی مُعامَلے) پر دانِستہ (یعنی جان بوجھ کر) جھوٹی قسم کھائے مَثَلاً کسی نے قسم کھائی : ’’ اللہ عَزَّ وَجَلَّکی قسم ! زیدگھر پر ہے، ‘‘ اوروہ جانتا ہے کہ حقیقت میں زَید گھر پر نہیں ہے تو یہ قسم ’’ غَمُوس ‘‘ کہلائے گی اورقسم کھانے والا سخت گنہگار ہوا ، اِستِغفار و توبہ فرض ہے مگر کفّارہ لازِم نہیں {۳} مُنْعَقِدہ یہ ہے کہ آیَندہ کے لیے قسم کھائی مَثَلاً یوں کہا: ’’ ربّ عَزَّ وَجَلَّکی قسم ! میں کل تمہارے گھر ضَرور آؤں گا۔ ‘‘ مگر دوسرے دن نہ آیا تو قسم ٹوٹ گئی ، اسے کفّارہ دینا پڑے گا اور بعض صورَتوں میں گنہگار بھی ہوگا۔ (فتاوٰی عالمگیری ج۲ص۵۲)
خُلاصہ یہ ہوا کہ قَسَم کھانے والا کسی گزری ہوئی یاموجودہ بات کے بارے میں