دی، میں نے ہمّت نہیں ہاری وقتاً فوقتاً دعوت پیش کرتا رہا ۔ آخِرِ کارکم و بیش دو سال بعداس نے دعوت قبول کر لی اور و ہ ’’ ریوالور ‘‘ کے ساتھ اجتِماع میں شریک ہوگیا۔ اِتِّفاق سے اُس دن میرا ہی بیان تھا جو کہ جہنَّم کے عذاب کیمُتَعلِّق تھا۔ جہنَّم کی تباہ کاریاں سُن کر سخت سردیوں کا موسِم ہونے کے باوُجُود بد مَعاشپسینے سے شرابور ہوگیا۔ بعد اجتِماع وہ روتا جاتا اور کہتا جاتا : ہائے! میرا کیا بنے گا! میں نے بَہُت سارے گناہ کئے ہیں ۔ پھر وہ تین دن بخار کے عالَم میں رہا۔ اسے اپنے گناہوں کا شدَّت سے اِحساس ہوچکا تھا، اس نے توبہ کرلی اورنَمازیں بھی پڑھنے لگا۔ دوسری جُمعرات اسے پھر اجتِماع میں شرکت کی سعادت ملی اور جنَّت کے موضوع پر بیان سن کر اُس کو ڈھار س ملی۔ آہِستہ آہِستہ اس پر مَدَنی رنگ چڑھتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ وہ دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابَستہ ہو گیا۔اس نے گھر سے. T.Vنکال باہَر کیا (کیوں کہ اس میں صرف گناہوں بھرے چینلز ہی دیکھے جاتے تھے، ’’ مدنی چینل ‘‘ شروع نہ ہوا تھا) داڑھی اور سبز عمامہ سجانے کی سعادت بھی حاصِل کر لی۔یہ بیان دیتے وَقت وہ دعوتِ اسلامی کے مَدَنی کاموں میں مشغول تنظیمی طور پر صوبائی سطح پر مجلسخُدّامُ المساجد کی ذمّے داری پر فائز ہے۔
اگر چور ڈاکو بھی آجائیں گے تو سدھر جائیں گے گر ملا مَدَنی ماحول
گنہگارو آؤ، سِیہ کارو آؤ گناہوں کو دیگا چھڑا مَدَنی ماحول
(وسائلِ بخشش ص۲۰۳)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد