کھائے تواللہ عَزَّ وَجَلَّکی قَسَم کھائے یا چُپ رہے۔ ‘‘ (صَحیح بُخاری ج۴ص۲۸۶حدیث ۶۶۴۶)
مُفَسِّرِشَہِیر، حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّاناِس حدیثِ پاک کے تَحت فرماتے ہیں : یعنی غیرِ خدا کی قسم کھانے سے مَنع فرمایا گیا۔ چُونکہ اہلِ عَرَب عُمُوماً باپ دادوں کی قسم کھاتے تھے اِس لیے اِسی کا ذِکر ہوا، غیرِ خدا کی قسم کھانا مکروہ ہے ، (مرقاۃ ج۶ص۵۷۹) اللہ عَزَّ وَجَلَّسے مُراد ربّ تَعَالٰی کے ذاتی و صِفاتی نام ہیں لہٰذا قرآن شریف کی قسم کھانا جائز ہے کہ قرآن شریف کلامُ اللہ کا نام ہے اورکلام اللہ صِفَتِ الٰہی ہے، قرآنِ مجید میں زَمانہ، اِنجیر، زَیتون وغیرہ کی قسمیں ارشاد ہوئیں وہ شَرعی قسمیں نہیں نیز یہ اَحکام ہم پر جاری ہیں نہ کہ ربّ تَعَالٰی پر ۔ (مراٰۃ ج ۵ ص ۱۹۴، ۱۹۵)
قسم میں اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ کہا تو قَسَم ہوگی یا نہیں ؟
فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں : قسم میں اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ کہا تو اُس کا پورا کرنا واجِب نہیں بشرطیکہ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ کا لفظ اِس کلام سیمُتَّصِل (یعنی ملا ہوا) ہو اوراگر فاصِلہ ہوگیا مَثَلاً قسم کھا کر چُپ ہوگیا یا درمیان میں کچھ اور بات کی پھر اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ کہا تو قَسَم باطِل نہ ہوئی۔ (دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتارج ۵ ص ۵۴۸ ) حضرتِ سیِّدُناعبد اللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے کہ رسولِ اکرم، نُورِ مُجَسَّم، شاہِ آدم وبنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: ’’ جو شخص قسم کھائے اور اس کے ساتھ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ کہہ لے تو حانِث (یعنی قسم توڑنے والا) نہ ہوگا۔ ‘‘
) تِرمِذی ج۳، ص۱۸۳حدیث ۱۵۳۶)