Brailvi Books

قسم کے بارے میں مدنی پھول
24 - 41
 نہیں ۔ ایک شخص کسی کے پاس گیا اُس نے اٹھنا چاہا اُس نے کہا : خداکی  قسم نہ اُٹھنا اور (جس سے کہا)  وہ کھڑا ہوگیا تواُس قسم کھانے والے پر کفّارہ نہیں ۔   (ایضاًص۵۹۔۶۰) 
 {14} یہاں  ایک قاعدہ یاد رکھنا چاہیے جس کا قسم میں  ہرجگہ لحاظ ضرور ہے وہ یہ کہ قسم کے تمام الفاظ سے وہ معنٰے لیے جائیں  گے جن میں  اہلِ عُرف استعمال کرتے ہوں مَثَلاً کسی نے  قسم کھائی کہ کسی مکان میں  نہیں  جائیگا اور مسجد میں  یا کعبۂ معظمہ میں  گیا تو قسم نہیں  ٹوٹی اگرچہ یہ بھی مکان ہیں ،  یوں  ہی حمّام میں  جانے سے بھی  قسم نہیں  ٹوٹے گی۔  (فتاوٰی عالمگیری ج۲ص ۶۸) 
قَسَم میں  نیّت اور غَرَض کا اِِعتبار نہیں 
	 {15} قسم میں  الفاظ کا لحاظ ہوگا ، اِس کا لحاظ نہ ہوگا کہ اِس قسم سے غَرَض کیا ہے یعنی ان لفظوں  کے بول چال میں  جو معنٰے ہیں  وہ مُراد لیے جائیں گے قسم کھانے والے کی نیّت اور مقصد کا اعتِبار نہ ہوگا مَثَلاً قسم کھائی کہ   ’’ فُلاں  کے لیے ایک پیسے کی کوئی چیز نہیں  خریدوں  گا  ‘‘ اور ایک رُوپے کی خریدی تو قسم نہیں  ٹوٹی حالانکہ اِس کلام سے مقصد یہ ہوا کرتا ہے کہ نہ پیسے کی خریدوں  گا نہ رُوپے کی مگرچُونکہ لَفظ سے یہ نہیں  سمجھا جاتا لہٰذا اس کا اعتبار نہیں  یا قسم کھائی کہ   ’’ دروازے سے باہَرنہ جاؤں  گا ‘‘ اور دیوار کُود کریا سیڑھی لگا کر باہَر چلاگیا تو قسم نہیں  ٹوٹی اگرچِہ اِس سے مُراد یہ ہے کہ گھرسے باہَر نہ جاؤں  گا۔  (دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتارج۵ ص۵۵۰) 
اِس ضِمن میں   حضرتِ سیِّدُناامامِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَمکی ایک حکایت سنئے اور جھومئے چُنانچِہ