بنارکھی ہے) کہ قَصد و بے قَصد (یعنی اِرادتاً اوربِغیرارادے کے) زَبان سے (قسم) جاری ہوتی ہے اور اس کابھی خیال نہیں رکھتے کہ بات سچّی ہے یا جھوٹی! یہ سخت مَعیوب (یعنی بَہت بُری بات ) ہے اور غیرِ خدا کی قسم مکروہ ہے اور یہ شَرعاً قسم بھی نہیں یعنی اس کے توڑنے سے کفّارہ لازِم نہیں ۔
غَلَطی سے قَسَم کھالی تو؟
{2} غَلَطی سے قسم کھا بیٹھا مَثَلاً کہنا چاہتا تھا کہ پانی لاؤ یاپانی پیوں گا اور زَبان سے نکل گیا کہ ’’ خدا کی قسم پانی نہیں پیوں گا ‘‘ تویہ بھی قسم ہے اگر توڑے گا کفَّارہ دینا ہوگا۔ (بہارِ شریعت ج۲ص۳۰۰ )
{3} قسم توڑنا اختیار سے ہو یا دوسرے کے مجبور کرنے سے، قَصداً (یعنی جان بوجھ کر ) ہو یا بھول چوک سے ہر صورت میں کَفّارہ ہے بلکہ اگر بیہوشی یا جُنُون میں قسم توڑنا ہوا جب بھی کفَّارہ واجِب ہے جب کہ ہوش میں قسم کھائی ہواور اگر بے ہوشی یا جُنُون (یعنی پاگل پن) میں قسم کھائی تو قسم نہیں کہ عاقل ہونا شَرط ہے اور یہ عاقل نہیں ۔ (تَبیِینُ الحقائق ج۳ ص ۴۲۳ )
ایسے الفاظ جن سے قَسَم نہیں ہوتی
{4} یہ الفاظ قسم نہیں اگرچِہ ان کے بولنے سے گنہگار ہوگا جبکہ اپنی بات میں جھوٹا ہے : اگر ایسا کروں تومجھ پر اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) کا غَضَب ہو۔اُس کی لعنت ہو ۔اُس کا عذاب ہو۔ خُدا کا قہرٹوٹے۔ مجھ پر آسمان پھٹ پڑے۔ مجھے زمین نگل جائے۔ مجھ پر خدا