میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! آج کل کثیر لوگوں کا بات بات پر قسمیں کھانے کی طرف رُجحان (رُج۔حان) دیکھا جا رہا ہے ، بارہاجھوٹی قسم بھی کھا لی جاتی ہے، نہ توبہ کا شُعور نہ کَفّارہ دینے کی کوئی شُد بُد، لہٰذا امّت کی خیرخواہی کا ثواب کمانے کی حِرص کے سبب بطورِ نیکی کی دعوت قدرے تفصیل کے ساتھ قَسَم اور اس کے کَفّارے کے بارے میں مَدَنی پھول پیش کرتا ہوں ، قَبول فرمایئے۔ اس کا اَز اِبتداء تا انتِہا مُطالَعہ یا بعض اسلامی بھائیوں کامل بیٹھ کر دَرس دیناصِرف مُفید ہی نہیں ، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّمفید ترین ثابِت ہو گا۔
قَسم کی تعریف
قسم کو عَرَبی زَبان میں ’’ یَمِین ‘‘ کہتے ہیں جس کا مطلب ہے: ’’ دا ہنی (یعنی سیدھی) جانِب ‘‘ ، چُونکہ اہلِ عَرَب عُمُوماً قسم کھاتے یا قسم لیتے وَقت ایک دوسرے سے داہنا (یعنی سیدھا) ہاتھ مِلاتے تھے اِس لئے قسم کو ’’ یمین ‘‘ کہنے لگے، یا پھر یَمِین ’’ یُمْن ‘‘ سے بنا ہے جس کے معنیٰ ہیں ’’ بَرَکت وقُوَّت ‘‘ ، چُونکہ قسم میں اللہ تَعَالٰی کا بابَرَکت نام بھی لیتے ہیں اور اس سے اپنے کلام کو قُوَّت دیتے ہیں اِس لئے اِسے یَمِین کہتے ہیں یعنی بَرَکت و قُوَّت والی گفتگو۔ (مُلَخَّص ازمِراۃُ المناجیح ج۵ ص۹۴) شَرعی اِعتِبار سے قسم اُس عَقد (یعنی عَہد وپَیماں ) کو کہتے ہیں جس کے ذَرِیعے قسم کھانے والا کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا پُختہ (پکّا) اِرادہ کرتاہے ۔ (دُرِّمُختار ج۵ ص۴۸۸) مَثَلاً کسی نے یوں کہا : ’’ اللہ عَزَّ وَجَلَّکی