الْہَادِیاس آیت کے تَحت لکھتے ہیں : بعض مُفَسِّرین (رَحِمَہُمُ اللہُ المُبِین) نے یہ بھی کہاہے کہ اس آیت سے بکثرت قسم کھانے کی مُمانَعَت ثابِت ہوتی ہے۔ ( حاشیۃُ الصّاوی ج۱ص۱۹۰)
حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم نَخَعِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرماتے ہیں : جب ہم چھوٹے چھوٹے تھے تو ہمارے بُزُرگ قسم کھانے اور وعدہ کرنے پر ہماری پِٹائی کرتے تھے ۔ (صَحیح بُخاری ج ۲ص۵۱۶حدیث۳۶۵۱)
تُو جھوٹی قسموں سے مجھ کو سدا بچا یا ربّ!
نہ بات بات پہ کھاؤں قسم، خدا یا ربّ!
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
’’ چُپ رہو سلامت رہو گے ‘‘ کے پندَرہ حُرُوف
کی نسبت سے قَسَم کے مُتعلِّق 15مَدَنی پھول
دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 1182 صَفحات پر مشتمل کتاببہارِ شریعت جلد2 صَفْحَہ 298 تا 311اور319 سے قسم اور کَفّارے سیمُتَعلِّق15 مَدَنی پھول پیش کئے جاتے ہیں ، (ضرورتاً کہیں کہیں تصرُّف کیا گیا ہے)
بات بات پر قسم نہیں کھانی چاہئے
{1} قسم کھانا جائز ہے مگر جہاں تک ہو کمی بہتر ہے اور بات بات پر قسم کھانی نہ چاہیے اور بعض لوگوں نے قسم کو تکیہ کلام بنا رکھاہے (یعنی دورانِ گفتگوباربارقسم کھانے کی عادت