تقدیر
اللّٰہ تعالیٰ کے علم میں ، جو کچھ عالم میں ہونے والا تھا اورجو کچھ بندے کرنے والے تھے اس کو اللّٰہ تعالیٰ نے پہلے ہی جان کر لکھ لیا۔ کسی کی قسمت میں بھلائی لکھی اور کسی کی قسمت میں برائی لکھی، اس لکھ دینے نے بندہ کو مجبور نہیں کردیا کہ جو اللّٰہ تعالیٰ نے لکھ دیا وہ بندہ کو مجبوراً کرنا پڑتا ہے بلکہ بندہ جیسا کرنے والا تھا ویسا ہی اُس نے لکھ دیا، کسی آدمی کی قسمت میں بُرائی لکھی تو اس لیے کہ یہ آدمی بُرائی کرنے والا تھا اگر یہ بھلائی کرنے والا ہوتا تو اُس کی قسمت میں بھلائی ہی لکھتا، اللّٰہ تعالیٰ کے علم نے یا اللّٰہ تعالیٰ کے لکھ دینے نے کسی کو مجبور نہیں کردیا۔
مسئلہ۱: تقدیر کے مسئلہ میں غور و بحث منع ہے، بس اِتنا سمجھ لینا چاہیے کہ آدمی پتھر کی طرح بالکل مجبور نہیں ہے کہ اُس کا اِرادہ کچھ ہو ہی نہیں بلکہ اللّٰہ تعالیٰ نے آدمی کو ایک طرح کا اِختیار دیا ہے کہ ایک کام چاہے کرے چاہے نہ کرے، اِسی اِختیار کی بناء پر نیکی بدی کی نسبت بندے کی طرف ہے اپنے آپ کو بالکل مجبور یا بالکل مختار سمجھنا دونوں گمراہی ہے۔
مسئلہ۲ : برے کام کی نسبت کس کی طرف کی جائے؟
بُرا کام کرکے یہ نہ کہنا چاہیے بے ادَبی ہے کہ ’’ خدا نے چاہا تو ہوا، تقدیر میں تھا کیا ‘‘ بلکہ حکم یہ ہے کہ اچھے کام کو کہے کہ خدا کی طرف سے ہوا اور بُرے کام کو اپنے نفس کی شرارت شامت جانے۔