الفاظِ متشابہ کی تاویل
اس قسم کے الفاظ میں تاویل کی جاتی ہے کیوں کہ اُن کا ظاہر مراد نہیں کہ اُس کے حق میں محال ہے۔ مثلاً یَدْکی تاویل قدرت سے اور وَجْھَہٗ کی ذات سے ، اِستواء کی غلبہ و توجہ سے کی جاتی ہے لیکن بہتر و اسلم یہ ہے کہ بلا ضرورت تاویل بھی نہ کی جائے۔ ( 1) بلکہ حق ہونے کا یقین رکھے اور مراد کو اللّٰہ (عَزَّوَجَلَّ) کے سپرد کرے کہ وہی جانے اپنی مراد، ہمارا تو اللّٰہ (عَزَّوَجَلَّ) ورسول (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کے قول پر ایمان ہے کہ استواء حق ہے، یدحق ہے اور اُس کا اِستواء مخلوق کا سا اِستواء نہیں ، اس کا ید مخلوق کا سا ید نہیں ، اس کا کلام دیکھنا سننا مخلوق کا سا نہیں ۔
عقیدہ۳: اللّٰہتعالیٰ کی ذات وصفات نہ مخلوق ہیں نہ مقدور۔
عقیدہ۴: کیا چیزیں حادِث ہیں اور کیا قدیم؟
ذات و صفات ِالٰہی کی علاوہ جتنی چیزیں ہیں سب حادِث ہیں یعنی پہلے نہ تھیں پھر موجود ہوئیں ۔
عقیدہ۵: صفاتِ الٰہی کو مخلوق کہنا یا حادِث بتانا گمراہی و بددینی ہے۔
عقیدہ۶: جو شخص اللّٰہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے علاوہ کسی اور چیز کو قدیم مانے یا عالم کے حادِث ہونے میں شک کرے وہ کافر ہے۔
________________________________
1 - قولہ: تاویل نہ کی جائی۔ قال فی شرح المواقف:فالحق التوقف مع القطع بانہ لیس کاستواء الاجسام۔ (شرح المواقف،المرصد الرابع،المقصد الثامن:فی انہ تعالٰی صفۃ،۸/ ۱۲۵) اقول:وہذا مذہب السلف وفیہ السلامۃ والسد اد۔۱۲منہ غفرلہ