کھانا رکھ کر غائب ہوجائے بلکہ وہاں حاضر رہے(عالمگیری ج۵ص۳۴۵)٭ مہمانوں کے سامنے خادم وغیرہ پر ناراض نہ ہو(ایضاً) ٭ میزبان کو چاہیے کہ مہمان کی خاطرداری میں خود مشغول ہو، خادموں کے ذ مّے اس کو نہ چھوڑے کہ یہ حضرتِ سیِّدُنا ابراھیم خلیل اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی سنّت ہے (ایضاً،بہارِ شریعت ج۳ص۳۹۴ ) جو شخص اپنے بھائیوں ( مہمانوں ) کے ساتھ کھاتا ہے اُس سے حساب نہ ہو گا( قوت القلوب ج۲ ص ۳۰۶ ) ٭ حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام ابوحامد محمدبن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالی فرماتے ہیں :جو شخص کم خوراک ہو جب وہ لوگوں کے ساتھ کھائے تو کچھ دیر بعد کھانا شروع کرے اور چھوٹے لقمے اٹھائے اورآہِستہ آہِستہ کھائے تاکہ آخر تک دوسرے لوگوں کا ساتھ دے سکے (مِرْقاۃُ الْمَفاتِیح ج۸ ص۸۴ تحتَ الحدیث ۴۲۵۴) ٭اگرکسی نے اِس لئے جلدی سے ہاتھ روک لیا تا کہ لوگوں کے دلوں میں مقام پیدا ہو اور اِس کو پیٹ کا قفلِ مدینہ لگانے والا( یعنی بھوک سے کم کھانے والا)تصوُّر کریں تو رِیا کار اور عذابِ نار کا حقدار ہے ٭اگر بھوک سے کچھ زیادہ اس لیے کھالیا کہ مہمان کے ساتھ کھا رہا ہے اور معلوم ہے کہ یہ ہاتھ روک دے گا تو مہمان شرما جائے گا اور سیر ہو کر نہ کھائے گا تو اس صورت میں بھی کچھ زیادہ کھالینے کی اجازت ہے جبکہ اتنی ہی زیادتی ہو جس سے مِعدہ خراب ہونے کا اندیشہ نہ ہو (مُلَخَّص از دُرِّمُختار ج۶ص۵۶۱) ٭ ایک شخص نے عرض کی: یا رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! میں ایک شخص کے یہاں گیا، اُس نے میری مہمانی نہیں کی اب وہ میرے یہاں آئے تو کیا میں اس سے بدلا لوں؟ ارشاد فرمایا:نہیں بلکہ تم اس کی مہمانی کرو۔( تِرمِذی ج ۳ ص ۴۰۵ حدیث۲۰۱۳)