Brailvi Books

قبر کا امتحان
24 - 26
   مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرماتے  ہیں:مہمان کو چار باتیں ضَروری ہیں: (۱) جہاں بٹھایا جائے وہیں بیٹھے(۲) جو کچھ اس کے سامنے پیش کیا جائے اس پر خوش ہو، یہ نہ ہو کہ کہنے لگے:اس سے اچھا تو میں اپنے ہی گھر کھایا کرتا ہوں یا اسی قسم کے دوسرے الفاظ (۳) بِغیر اجازتِ صاحِبِ خانہ (یعنی میزبان سے اجازت لئے بِغیر)وہاں سے نہ اُٹھے اور (۴) جب وہاں سے جائے تو اس کے لیے دُعا کرے(عالمگیری ج۵ص۳۴۴)٭  گھر یا کھانے وغیرہ کے مُعامَلات میں کسی قسم کی تنقیدکرے نہ ہی جھوٹی تعریف ۔میزبان بھی مہمان کو جھوٹ کے خطرے میں ڈالنے والے سُوالات نہ کرے مَثَلاًکہنا ہمارا کھانا کیسا تھا؟ آپ کو پسند آیا یا نہیں؟ایسے موقع پر اگر نہ پسند ہونے کے باوُجُود مِہمان مُرَوَّت میں کھانے کی جھوٹی تعریف کریگا تو گنہگار ہو گا۔ اِس طرح کا سُوال بھی نہ کرے کہ’’ آپ نے پیٹ بھر کر کھایا یا نہیں؟‘‘ کہ یہاں بھی جواباً جھوٹ کا اندیشہ ہے کہ عادتِ کم خوری یا پرہیزی یا کسی بھی مجبوری کے تحت کم کھانے کے باوُجُوداصرار وتکرارسے بچنے کیلئے مِہمان کو کہنا پڑ جائے کہ’’ میں نے خوب ڈٹ کر کھایا ہے‘‘٭میزبان کو چاہیے کہ مہمان سے وقتاً فوقتاً کہے کہ ’’اور کھاؤ‘‘ مگر اس پر اِصرار نہ کرے ،کہ کہیں اِصرار کی وجہ سے زیادہ نہ کھا جائے اور یہ ا س کے لیے نقصان دہ ہو (ایضاً) ٭ حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام ابوحامد محمدبن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالی  فرماتے ہیں :ساتھی کم کھاتا ہو تو اُس سے ترغیباً کہے: کھایئے! 
لیکن تین بار سے زیادہ نہ کہا جائے کیوں کہ یہ ’’ اصرار‘‘ کرنا اور حد سے بڑھنا ہوا( اِحیا ء العلوم ج۲ ص ۹)  ٭ میزبان کو بالکل خاموش نہ رہنا چاہیے اور یہ بھی نہ کرنا چاہیے کہ