مہمان نہیں(مراٰۃ ج۶ ص ۵۴) ٭مہمان کو چاہئے کہ اپنے میزبان کی مصروفیات اور ذِمّے داریوں کا لحاظ رکھے۔بہارِ شریعت جلد3صَفْحَہ391پر حدیث نمبر14 ہے:’’جو شخص اللہ (عَزَّ وَجَلَّ ) اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ مہمان کا اکرام کرے، ایک دن رات اُس کا جائزہ ہے (یعنی ایک دن اس کی پوری خاطر داری کرے، اپنے مقدور بھر اس کے لیے تکلف کا کھانا تیّار کرائے) اور ضِیافت تین دن ہے (یعنی ایک دن کے بعد تکلُّف نہ کرے بلکہ جو حاضِر ہو وہی پیش کردے) اور تین دن کے بعد صدقہ ہے، مہمان کے لیے یہ حلال نہیں کہ اس کے یہاں ٹھہرا رہے کہ اسے حرج میں ڈال دے‘‘ ( بُخاری ج ۴ص۱۳۶ حدیث ۶۱۳۵)٭جب آپ کسی کے پاس بطورِ مہمان جائیں تو مُناسب ہے کہ اچّھی اچھّی نیّتوں کے ساتھ حسبِ حیثیت میزبان یااُس کے بچّوں کیلئے تحفے لیتے جائیے ٭ بعض اوقات ایسا بھی ہو تا ہے کہ اگر مہمان کچھ تحفہ نہ لائے تو میزبان یا اُس کے گھر والے مہمان کی بُرائی کے گناہوں میں پڑتے ہیں ۔ تو جہاں یقینی طور پر یا ظنِّ غالِب سے ایسی صورتِ حال ہو وہاں مہمان کو چاہئے کہ بِغیر مجبوری کے نہ جائے۔ ضَرورتاً جائے اور تحفہ لے جائے تو حَرَج نہیں، البتّہ میزبان نے اِس نیّت سے لیا کہ اگر مہمان تحفہ نہ لاتا تو یہ یعنی میزبان اِس (مہمان) کی بُرائیاں کرتا یابطورِ خاص نیّت تو نہیں مگر اِس کا ایسا بُرامعمول ہے تو جہاں اِسے غالِب گمان ہو کہ لانے والا اِسی طور پر یعنی شرسے بچنے کیلئے لایا ہے تو اب لینے والا میزبان گنہگار اور عذابِ نارِ کا حقدار ہے اور یہ تحفہ اِ س کے حق میں رشوت ہے۔ ہاں اگر بُرائی بیان کرنے کی نیّت نہ ہواور نہ اِس کا ایسا معمول ہو تو تحفہ قَبول کرنے میں حرج نہیں٭ صَدرُالشَّریعہ ، بَدرُالطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانا