ایمان رکھتا ہے اُسے چاہئے کہ مہمان کا احترام کرے ( بُخاری ج ۴ ص۱۰۵حدیث۶۰۱۸) مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان اس حدیثِ پاک کے تَحْت فرماتے ہیں: مِہمان کا اِحترام یہ ہے کہ اس سے خندہ پیشانی سے ملے ،اس کے لیے کھانے اور دوسری خدمات کا انتِظام کرے حتَّی الامکان اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے(مراٰۃ ج۶ص۵۲){۲} جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رِزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحِبِ خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے (کَنْزُ الْعُمّالج۹ ص۱۰۷حدیث۲۵۸۳۱){۳}جس نے نَماز قائم کی ، زکٰوۃ ادا کی ، حج ادا کیا،رَمَضان کے روز ے رکھے اور مہمان کی مہمان نوازی کی ،وہ جنّت میں داخِل ہوگا (اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر ج۱۲ص۱۰۶حدیث ۱۲۶۹۲) {۴}جو شخص(باوُجُودِ قدرت) مہمان نوازی نہیں کرتا اُس میں بھلائی نہیں(مُسندِ اِمام احمد بن حنبل ج ۶ ص ۱۴۲حدیث ۱۷۴۲۴ ) {۵}آدَمی کی کم عقلی ہے کہ وہ اپنے مہمان سے خدمت لے(اَلْجامِعُ الصَّغِیر ص۲۸۸حدیث ۴۶۸۶){۶}سنّت یہ ہے کہ آدَمی مہمان کو دروازے تک رخصت کرنے جائے ( اِبن ماجہ ج۴ ص۵۲حدیث۳۳۵۸) مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان فرماتے ہیں:ہمارا مہمان وہ ہے جو ہم سے ملاقات کے لیے باہر سے آئے خواہ اُس سے ہماری واقفیت پہلے سے ہو یا نہ ہو جو ہمارے لئے اپنے ہی محلہ یا اپنے شہر میں سے ہم سے ملنے آئے دو چار منٹ کے لئے وہ ملاقاتی ہے مہمان نہیں۔ اس کی خاطر تو کرو مگر اس کی دعوت نہیںہے اور جوناواقف شخص اپنے کام کے لئے ہمارے پاس آئے وہ مہمان نہیں جیسے حاکم یا مفتی کے پاس مقدمہ والے یا فتویٰ والے آتے ہیں یہ حاکم کے