آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی میٹھی میٹھی سنّت عمامہ شریف کا تاج بھی سرپر سجالیجئے ۔
عِمامے کی پیاری حکایت
میرے آقا امامِ اہلسنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں:( امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پوتے حضرتِ سیِّدُنا) سالِم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں:میں اپنے والِدِ ماجِد(حضرتِ سیِّدُنا )عبدُ اللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکے حُضُور حاضِر ہوا اور وہ عمامہ باندھ رہے تھے ،جب باندھ چکے،میری طرف اِلتِفات(یعنی توجُّہ) کرکے فرمایا:تم عمامے کو دوست رکھتے ہو؟ میں نے عرض کی : کیوں نہیں ! فرمایا: اسے دوست رکھّو عزّت پاؤگے اور جب شیطان تمہیں دیکھے گاتم سے پیٹھ پھیر لے گا ،میں نے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فرماتے سنا کہ’’ عمامے کے ساتھ ایک نفل نَماز خواہ فَرض بے عِمامے کی پچیس نَمازوں کے برابر ہے اور عمامے کے ساتھ ایک جمعہ بے عمامے کے ستّر جمعوں کے برابر ہے ۔‘‘پھر ابنِ عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا:اے فرزند! عِمامہ باند ھ کہ فِرِشتے جُمُعہ کے دن عِمامہ باندھے آتے ہیں اور سورج ڈوبنے تک عمامے والوں پر سلام بھیجتے رہتے ہیں ۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج ۶ص ۲۱۵ )
اگرسب اپنی مَدَنی سوچ بنالیں کہ آج سے ہم داڑھی، زُلفوں اور عمامہ شریف کی سنّتیں اپنالیں گے تو میں سمجھتا ہوں کہ داڑھی ، زلفوں اور عمامہ شریف کا ایک بارپھر رَواج پڑجائیگا۔یعنی جس طرح آج لوگ بکثرت داڑھیاں مُنڈاتے ہیں اسی طرح کثیر مسلمان