مَدَنی قافِلے میں سفر کیاکرتا تھا ۔اسی اسلام کی مَحَبَّت میں تو میں مُعاشَرے کے طعنے سہتا تھا، سنّتوں پر عمل کرتا دیکھ کر لوگ مذاق اڑاتے تھے ، مگر میں ہنسی خوشی برداشت کیا کرتا تھا، اسی دینِ اسلام کی خاطِر میری زندَگی وَقْف تھی) پھر کسی کارَحمت بھرا جلوہ دکھایا جائے گا، توخوش نصیب نَمازیوں، روزہ داروں،حاجیوں، فرض ہونے کی صورت میں پوری زکوٰۃ ادا کرنے والوں، سنّتوں پر عمل کرنے والوں، نیکی کی دعوت کی دھومیں مچانے والوں اورمَدَنی قافلوں میں سنّتوں بھرا سفر کرنے والوںکا دل خوشی سے جھوم اُٹھے گا۔کیونکہ دُنیا ہی میں بقولِ مفتی احمدیار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّانعُشّاق کی یہ کیفیت ہوتی ہے: ؎
روح نہ کیوں ہومُضْطَرِب موت کے انتِظار میں سنتا ہوں مجھ کو دیکھنے آئیں گے وہ مزار میں
اور اس حسرت کو بھی زندگی بھرپروان چڑ ھایا تھاکہ : ؎
قبر میں سرکار آئیں تو میں قدموں پر گروں گر فِرشتے بھی اٹھائیں تومیں اُن سے یوں کہوں
اب توپائے نازسے میں اے فِرشتوکیوں اُٹھوں مر کے پہنچا ہوں یہاں اِس دلرُبا کے واسطے
تو جب سرکارِ نامدار،مدینے کے تاجدار ،ہم غریبوں کے غمگسار ،بے کسوں کے مدد گار ، شَہَنْشاہِ والا تَبار ،صاحِبِ پسینۂ خوشبو دار ،شفیعِ رو زِ شمار جناب احمدِ مختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں پوچھا جائے گا:مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِیْ ھٰذَا الرَّجُل؟ ’’اِس مَرد کے بارے میں تُو کیا کہتا تھا‘‘؟ تو زَبان سے بے ساختہ جاری ہوگا:ہُوَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،’’یعنی یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں‘‘،(یہی تو میرے وہ آقا