اور پانی بھی موجود ہے یا نہیں۔اگر وقت ایسا ہو کہ نہانے لگیں گے تو کسی بھی فرض نماز کی جماعت یا خطبۂ جمعہ اور نمازِ جمعہ فوت ہو جانے کا اندیشہ ہے یا سیکھنے سکھانے کے حلقوں میں شرکت نہیں ہو پائے گی یا پانی ختم ہو جائے گا جس کی وجہ سے اپنے آپ کو اور دوسروں کو شدید مشقت کا سامنا کرنا پڑے گا تو ایسی صورت میں سُنَّت یا مستحب غسل کرنے سے پرہیز کریں۔ویسے بھی مذہبِ حنفی میں جمعہ کا غسل سنَّتِ غیرمؤ کدہ ہے جیسا کہ خَاتَمُ الْمُحَقِّقِیْن حضرتِ سیِّدُنا علّامہ ابنِ عابِدین شامی قُدِّسَ سِرُّہُ السَّامی فرماتے ہیں:نمازِ جمعہ کے لیے غسل کرنا سُنَنِ زَوائِد (یعنی سنّتِ غیر مؤ کدہ)میں سے ہے،اِس کے ترک پر عتاب (یعنی ملامت) نہیں۔ (1) اگر غسل خانے فنائے مسجد میں نہ ہوں بلکہ دُور ہوں تو پھر معتکف فرض غسل کے عِلاوہ ٹھنڈک حاصل کرنے یا سُنَّت یا مستحب غسل کرنے اور صابن کے ساتھ ہاتھ منہ دھونے کے لیے وہاں نہیں جا سکتا۔
علمِ دِین سے دُوری اور جہالت کے سبب بعض لوگ سُنَّت کے مطابق وُضو اور غسل کرنا بھی نہیں جانتے جس کی وجہ سے بہت زیادہ پانی ضائع ہوتا ہے۔آج کل تو حالت يہ ہے کہ لوگ جب وُضو کرنے کے لیے بیٹھتے ہیں تو بیٹھتے ہی نَل کھول لیتے ہیں پھر بڑے مزے سے آستین چڑھا کر وُضو کرنا شروع کرتے ہیں تو اس طرح وُضو شروع کرنے سے پہلے ہی کافی پانی ضائع ہو چکا ہوتا ہے ۔اِسی
________________________________
1 - ردالمحتار ، کتاب الطھارة ، مطلب فی رطوبة الفرج، ۱ / ۳۳۹ دار المعرفة بیروت