میں مُعَلَّق ہونے کے متعلق اِرشادفرمایا کہ) حضرتِ سیِّدُنا شاہِ عالَم رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہِ بَہُت بڑے عالمِ دِین اور پائے کے ولِیُّ اللہ تھے۔ آپ نہایت ہی لگن کے ساتھ علمِ دِین کی تعلیم دیتے تھے۔ ایک بار بیمار ہو کر صاحبِ فِراش ہوگئے اور پڑھانے کی چھٹیاں ہوگئیں۔ جس کا آپرَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو بے حد افسوس تھا۔ تقریباً چالیس دن کے بعد صحّت یاب ہوئے اور مدرَسے میں تشریف لا کر حسبِ معمول اپنے تخت پر تشریف فرما ہوئے۔ چالیس دن پہلے جہاں سبق چھوڑا تھا وَہیں سے پڑھانا شروع کیا۔ طلبا نے متعجب ہو کر عرض کی:حُضُور! آپ نے یہ مضمون تو بَہُت پہلے پڑھا دیا ہے۔ گزشتہ کل تو آپ نے فُلاں سبق پڑھایا تھا ! یہ سُن کر آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہِ فورًا مُراقِب ہوئے۔ اُسی وقت سرکارِ مدینہ، قرارِقلب و سینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی زِیارت ہوئی۔ سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے لبہائے مُبارَکہ سے مشکبارپھول جھڑنے لگے اور اَلفاظ کچھ یوں ترتیب پائے: ’’ شاہِ عالَم! تمہیں اپنے اَسباق رہ جانے کا بَہُت افسوس تھا لہٰذا تمہاری جگہ تمہاری صورت میں تخت پر بیٹھ کر میں روزانہ سبق پڑھا دیا کرتا تھا۔ ‘‘ جس تخت پر سرکارِ نامدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم تشریف فرما ہوا کرتے تھے اب اُس پر حضرتِ قبلہ شاہِ عالَم رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کس طرح بیٹھ سکتے تھے لہٰذا آپ فورًا تخت پر سے اُٹھ گئے۔ تخت کو یہاں مسجد میں مُعَلَّق کر دیا گیا۔اس کے بعد حضرتِ شاہِ عالَم رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہِ کے لیے