کچھ اور، شکار کا ذِکر تو قرآنِ کریم میں ہے یہاں مشغلۂ شوقیہ کا ذِکر ہے لہٰذا یہ حدیث حکمِ قرآن کے خلاف نہیں۔ (1)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! بیان کردہ حدیثِ پاک اور اس کی شرح سے معلوم ہوا کہ نہ تو شکار کرنا سنَّت ہے اور نہ ہی تفریحاً شکار کرنے کی اجازت۔ بہرحال اگر کسی نے تفریحاً شکار کیا تو اس کا یہ فعل (یعنی شکار کرنا) حرام ہے مگر جو مچھلی یا حلال جانورجس کا شکارکیا گیا اُسے کھانا حلال ہے جیسا کہ اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلسنَّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں:کسی جانور کا شِکار اگر غِذا یا دَوا یا دَفع ِایذا یا تجارت کی غرض سے ہو جائز ہے اور جو تفریح کے لئےہو جس طرح آج کل رائج ہے اور اسی لئے اسے شکار کھیلنا کہتے اور کھیل سمجھتے ہیں اور وہ جو اپنے کھانے کے لئے بازار سے کوئی چیز خرید کر لانا عار جانیں، دُھوپ اور لُو میں خاک اُڑاتے (یعنی آوارہ پھرتے) ہیں، یہ مطلقاً حرام ہے۔ رہی شکار کی ہو ئی مچھلی اس کا کھانا ہر طرح حلال ہے اگرچِہ فعلِ شکار ان ناجائز صورتوں سے ہوا ہو۔ (2)
کیا سرکار عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے مہندی لگائی؟
سُوال : مہندی لگانا قولی سُنَّت ہے تو کیا سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے اپنے مبارک بالوں میں کبھی بھی مہندی نہیں لگائی؟
________________________________
1 - مرآۃ المناجیح ، ۵ / ۳۶۱ ضیاء القرآن پبلی کیشنز مرکز الاولیا لاہور
2 - فتاویٰ رضویہ ، ۲۰ / ۳۴۳ ملتقطاً