Brailvi Books

مدنی مذاکرہ قسط 20:قُطبِ عالَم کی عجیب کرامت
34 - 39
 بایزید بسطامی قُدِّسَ  سِرُّہُ السَّامِی کو تنبیہ کی گئی تو اسی طرح ”حَلِیْم“بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کا صفاتی نام ہےلہٰذا اسے”کھچڑے“کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔جتنا زیادہ ادب کریں گے اتنی ہی زیادہ برکتیں نصیب ہوں گی ۔ بہرحال اگر کسی نے اس غذاکو حلیم کہا تو  اسے گناہگار نہیں کہا جائے  گا، حضرتِ سیِّدُنا  بایزید بسطامی قُدِّسَ  سِرُّہُ السَّامِی کو ان کے منصبِ ولایت کی وجہ سے تنبیہ فرمائی  گئی تھی۔
جو ہے باادب وہ بڑا بانصیب اور
                         جو ہے بے ادب وہ نہایت بُرا ہے	 (وسائلِ بخشش )
تفریحاً شکار کرنا کیسا؟
سُوال :کیا شکار کرنا      سُنَّت ہے؟نیز تفریحاً شکار کرنا کیساہے؟
جواب:شِکار اگر غِذا یا دَوا یا تجارت کی غرض  کے لیے کیا جائے تو یہ جائز ہےجبکہ بطورِ تفریح شکار کرنا حرام ہے ۔ حدیثِ پاک  میں ہے:جوشکار کے پیچھے رہا وہ غافِل ہوگیا۔ (1)  اِس حدیثِ پاک کے تحت مُفَسّرِشہیر، حکیمُ الْامَّت حضرت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں:یعنی جو شکار کا شغل اپنا وَطیرہ بنا لے کہ محض شوقیہ شکار کھیلتا رہے وہ اللہ کے ذِکر، نماز و جماعت،  جمعہ، رِقَّتِ قلب سے محروم رہتا ہے۔حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم نے کبھی شکار نہ کیا۔بعض صحابہ نے شکار کیا ہے مگر شکارکرنا اور ہے اور شکار کا مشغلہ وہ بھی محض شوقیہ



________________________________
1 -    مشکاة المصابیح ، کتاب الامارة  والقضاء، الفصل الثانی ، ۲ / ۹، حدیث: ۳۷۰۱  دارالکتب  العلمیه  بیروت