Brailvi Books

مدنی مذاکرہ قسط 20:قُطبِ عالَم کی عجیب کرامت
33 - 39
”حلیم“ کو”کھچڑا“ کہنے کی وجہ
سُوال :ایک مشہور کھانا جسے ”حلیم“ کہا جاتا ہے،  مگر بعض لوگ اسے” کھچڑا“ کہتے ہیں اور دوسروں کو بھی اسے ”کھچڑا“ کہنے کی ترغیب دِلاتے ہیں،  اِ س میں کیا  حِکمت ہے؟
جواب:” کھچڑے“کو”حلیم“کہنا بھی جائز ہے مگر چونکہ”حَلِیْم“اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  کا ایک صِفاتی نام ہےاس لیے کھانے کی چیز کے لیے یہ لفظ اِستِعمال نہیں  کرنا چاہیے۔ اِس غذا کو اُردو میں ’’ کھچڑا ‘‘ بھی کہتے ہیں لہٰذا اس کے لیے یہی لفظ اِستِعمال کیا جائے۔ بعض اوقات کسی دُنیوی شے پر مُتَبَرِّک اَلفاظ نہ بولنا بھی اَدب ہوتا ہے، اِس ضمن میں ایک حکایت ملاحظہ کیجیے چنانچہ تذکرۃُ الاولیا میں ہے: حضرتِ سیِّدُنا بایزید بسطامی قُدِّسَ  سِرُّہُ السَّامِی نے ایک بار سُرخ رنگ کا سیب ہاتھ میں لے کر فرمایا:یہ تو بَہُت ہی ”لطيف“ہے۔ غیب سے آواز آئی:ہمارا نام سیب کے لیے اِستِعمال کرتے ہوئے حیا نہیں آئی! اللّٰہ  عَزَّوَجَلَّنے چالیس دِن کے لیے اپنی یاد ان کے دِل  سے نکال دی۔آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہِ نے بھی قسم کھائی کہ اب کبھی بسطام کا پھل نہیں کھاؤں گا۔ (1)   
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا! آپ نے کہ ”لَطِيْف“ کا ایک لفظی معنیٰ ”عمدہ“ہے مگر چونکہ یہ اللّٰہ  عَزَّوَجَلَّ کا صِفاتی نام بھی ہے اس لیے حضرتِ سیِّدُنا



________________________________
1 -    تذکرةُ الاولیا، باب چھار دھم، ذکر بایزید بسطامی، ص۱۳۴ اِنتشارات گنجینہ تھران