ولی ہونے کے لیے ایمان وتقویٰ شرط ہے
سُوال :کیا ولی ہونے کے لیے کرامت شرط ہے؟
جواب:ولی ہونے کے لیے کرامت شرط نہیں بلکہ ایمان اور تقویٰ شرط ہے جیسا کہ پارہ 11 سورۂ یونس کی آیت نمبر63 میں خُدائے رحمٰن عَزَّ وَجَلَّ کا فرمانِ عالیشان ہے: (الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَؕ (۶۳)) ترجمۂ کنزُ الایمان:” (اولیا) وہ جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے ہیں۔“اسی طرح پارہ 9 سورۃ ُ الْانفال کی آیت نمبر 34 میں اِرشاد ہوتا ہے: (اِنْ اَوْلِیَآؤُهٗۤ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ) ترجمۂ کنزالایمان:اس کے اولیاء تو پرہیزگار ہی ہیں ۔
اِس آیتِ مُبارَکہ کے تحت مُفَسِّرِ شَہِیر، حکیمُ الاُمَّت حضرتِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں:کوئی کافر یا فاسق اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) کا ولی نہیں ہو سکتا۔ ولایتِ الٰہی ایمان و تقویٰ سے میسر ہوتی ہے۔ (1) معلوم ہوا کہ ولی کے لیے کرامت کا ہونا شرط نہیں بے شمار ایسے اَولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام گزرے ہیں جن سے ایک کرامت بھی منقول نہیں، اگر کسی نے ان سے کرامت کا مُطالبہ کیا بھی تو انہوں نے عاجزی و انکساری کا مُظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو گناہ گار ظاہر فرمایا جیسا کہ ”حضرت خواجہ شیخ بہاؤ الحق والدِّین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہ سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ کے امام ہیں۔آپ سے کسی نے عرض کی کہ حضرت تمام اَولیاء سے کرامتیں ظاہر ہوتی ہیں، حضور سے بھی کوئی کرامت دیکھیں!
________________________________
1 - تفسیرِ نعیمی ، پ ۹، الانفال ، تحت الآيۃ: ۳۴ ، ۹ / ۵۴۳