کچھ دیر بعد اُس کی نَمی میں مَزید اِضافہ ہوگیا۔ میں نے اسلامی بھائیوں سے کہا: غالِباً یہ اُمُّ الْمُؤمِنِیْن حضرتِ سیِّدَتُنا مَیمونہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے فِراق میں رو رہا ہے، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ میں اِن تمام سنگریزوں کو امّی جان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے پاس پَہُنچا دوں گا۔ حیرت بالائے حیرت یہ کہ کچھ ہی دیر میں وہ خشک ہوگیا یعنی ڈھارس ملنے پر اُس نے رونا بند کر دیا۔بالآخر میں نے اُمُّ الْمُؤمِنِیْن حضرتِ سَیِّدَتُنا مَیمونہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے دَربار میں حاضِری دی اور ان سنگریزوں کو بَصَد اَدَب وہاں رکھ دیا اور امّی جان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے مُعافی بھی مانگی۔
مُزدَلفہ کی اَشکبار کنکریاں
منقول ہےکہ ایک بُڑھیا حج پر گئی۔رَمی جَمرات (یعنی شیطان کو کنکریاں مارنے) کے بعد مُزْدَلفہ شریف کی چند کنکریاں بچ گئیں، وہ انہیں بطورِ یادگار اپنے ساتھ وَطن لیتی آئی اور ایک پاک کپڑے میں لپیٹ کر اَدَب کے ساتھ انہیں اَلماری میں رکھ دیا۔ ایک دِن اُس کی نظر کنکریوں کی جگہ پر پڑی تو دیکھاکہ وہاں نَمی ہے۔ اُس نے متعجب ہو کر کپڑے سے کنکریاں نکالیں تو یہ دیکھ کر اُس کی حیرت کی اِنتہا نہ رہی کہ وہ پانی ان کنکریوں سے نکل رہا تھا۔ گھبرا کر کسی سُنّی عالِم سے رابِطہ کیا تو اُنہوں نے فرمایا کہ یہ کنکریاں مزدَلفہ شریف کی مقدَّس سر زمین کے فِراق میں رو رہی ہیں ان کو وہیں بھجوا دیں چُنانچِہ کسی حاجی صاحِب کے ذَرِیعے اُن کو مُزْدَلفہ شریف پَہُنچا دیا گیا۔