چار سالہ سروس میں مُنہ کے کینسر میں اکثر نوجوانوں ہی کو مبتَلا دیکھا ہے۔ اِس کی وجہ سگریٹ، پان ، چھالیا، تمباکو اور مین پوڑی کا بے تَحاشہ استِعمال ہے۔ یہ چیزیں نہ جانے کتنوں کو کینسر کے مَرَض میں پٹخ دیتی ہیں ۔ بعض لوگوں کا یہ کہنا مناسِب نہیں کہ ’’ فُلاں ایک عرصے سے پان کھارہا ہے اُس کو توکچھ نہیں ہوتا! ‘‘ ہم اللہ عَزَّ وَجَلَّسے عافِیّت کا سُوال کرتے ہیں ، آج نہیں بھی ہوا تو کل ’’ کچھ ‘‘ ہوسکتا ہے۔ نفسانی خواہِش اور چندمِنَٹ کے لُطف کی خاطر اپنی قیمتی جان کو خطرے میں ڈالنا دانِشمندی نہیں ، بَہَرحال ان چیزوں کے کثرتِ استعمال میں جانی و مالی ہر طرح سے نقصان ہے۔ ایک چھوٹا سا پان بابُ المدینہ کراچی میں (تادمِ تحریر یعنی ۳۰ ربیعُ الغوث ۱۴۲۶) 2روپے 50 پیسے کا ملتا ہے اگر روزانہ کوئی10 پان کھائے تو یومیہ25 روپے ہوئے اور اس طرح وہ مَدَنی برس کے حساب سے سالانہ 9125 روپے کے پان کھا کر تھو تھو کرتا ، پچکاریاں مارتا اور بجائے فائدے کے اتنی بھاری رقم میں طرح طرح کے اَمراض خرید رہا ہے۔ نیز اگر کوئی بیماری لگ گئی تو علاج پر ہزار ہا روپے کا خَرچ مزید برآں اور پچکاری مار کر کسی کی دیوار کو رنگین کردیا تو اُس کی دل آزاری و حق تلفی کے گناہِ کبیرہ کا امکان جدا۔
کیچڑ آلود دیوا رکی حکایت
جو لوگ دوسروں کی دیواروں پر پان کی پِیک تھوکتے، بِغیر اجازتِ مالِکِ مکان