نصاب اصول حديث مع افاداتِ رضویہ |
ترہیب کے سلسلے میں بھی ضعیف احادیث بیان کی جا سکتی ہے لیکن یہ یاد رہے کہ ضعیف حدیث کی نسبت بالجزم سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی طرف کرنا روانہیں ہاں یوں کہا جاسکتاہے کہ
روي عن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم یا بلغنا عنہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کذا۔
(۔۔۔۔۔۔تتمّہ۔۔۔۔۔۔) ھَذَا حَدِیْث حَسَن صَحِیْح:
بعض اوقات امام ترمذی ایک ہی حدیث کو حسن صحیح کہہ دیتے ہیں حالانکہ حسن رتبہ کے اعتبار سے صحیح سے کم ہوتی ہے جیسا کہ تعریفات کے ضمن میں گذرچکا ،اس کے جواب میں امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (۱)۔۔۔۔۔۔جب کسی حدیث کی دویازائد اَسناد ہوں تو
حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ
کا معنی ہوتاہے کہ ایک سند کے اعتبار سے حسن ہے جبکہ دوسری کے اعتبار سے صحیح۔ (۲)۔۔۔۔۔۔اور اگر ایک ہی سند ہوتوایک قوم کے نزدیک اس کی شرائط کے مطابق وہ حدیث حسن جبکہ دوسری قوم کے نزدیک اس کی شرائط کے مطابق صحیح ہوتی ہے لیکن چونکہ امامِ مجتہد کو ناقل کی حالت میں تردد ہوتاہے اس لیے وہ حدیث کو ایک وصف سے متصف نہیں کرپاتااور کمالِ تقوی اور عدالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہہ دیتاہے کہ
ھَذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ یعنی حَسَنٌ أَوْ صَحِیْحٌ۔