نصاب اصول حديث مع افاداتِ رضویہ |
''عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِیْعَۃَ عَنْ أَبِیْہِ أَنَّ امْراَئۃً مِنْ بَنِيْ فَزَارَۃَ تَزَوَّجَتْ عَلٰی نَعْلَیْنِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرَضِیْتِ مِنْ نَفْسِکِ وَمَالِکِ بِنَعْلَیْنِ؟ قَالَتْ نَعَمْ۔ فَأَجَازَ۔''
ترجمہ: عاصم بن عبید اللہ مذکورہ سند سے روایت کرتے ہیں کہ بنو فزارہ کی ایک عورت نے دو جوتوں کے عوض نکاح کرلیا تورسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے اس عورت سے دریافت فرمایا کہ تم اپنے نفس اور مال کے بدلے میں دوجوتوں کے معاوضہ پر راضی ہو؟اس نے عرض کی ہاں توآپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے نکاح کی اجازت دے دی۔ اس حدیث کا ایک راوی عاصم بن عبید اللہ سوء حفظ کی وجہ سے ضعیف ہے لیکن چونکہ یہ حدیث متعدد صحابہ کرام سے مروی ہے اس لیے حسن لغیرہ ہے۔ ان کا حکم: یاد رہے یہ چاروں اقسام قابل استدلال ہیں یعنی ان سے حجت پکڑی جاسکتی ہے(۱) کیونکہ یہ مقبول کی اقسام ہیں لیکن صحیح لذاتہ واجب العمل ہے۔
حسن لذاتہ ولغیرہ کے رتبہ میں فرق:
حسن لغیرہ حسن لذاتہ سے مرتبہ میں کم ہوتی ہے اگر کہیں ان دونوں میں
1۔۔۔۔۔۔حدیث ِحسن احکامِ حلال وحرام میں حجت ہوتی ہے۔(فتاوی رضویہ ۵/۴۳۷)