Brailvi Books

نصاب اصول حديث مع افاداتِ رضویہ
42 - 95
حدیث صحیح لذاتہ نہیں کہلائے گی(۱)۔
مثال:
    حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ یُوْسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِکٌ عَنْ ابْنِ شِہِابٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَرَأَ فِي الْمَغْرِبِ بِالطُّوْرِ۔(رواہ البخاری فی کتاب الاذان)
ترجمہ:''ہمیں عبد اللہ بن یوسف نے بیان کیا: فرماتے ہیں کہ ہمیں خبر دی مالک نے وہ روایت کرتے ہیں ابن شہاب سے اور ابن شہاب روایت کرتے ہیں محمد بن جبیر بن مطعم سے اور وہ اپنے والد سے کہ ان کے والد نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کو سنا کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے مغرب میں سورہ طور کی تلاوت فرمائی''۔
 (۲)۔۔۔۔۔۔صحیح لغیرہ:
    وہ حدیث جس کے راویوں میں صحیح لذاتہ کی تمام شرائط پائی جائیں لیکن ضبط روایت میں کچھ کمی ہو۔لیکن تعددِطرق سے یہ کمی پوری ہوجائے۔

مثال:
    عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ أَبِيْ سَلْمَۃَ عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ
1۔۔۔۔۔۔ حدیث کے صحیح نہ ہونے اور موضوع ہونے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔اور حدیث کے صحیح نہ ہونے سے اس کا موضوع ہونا لازم نہیں آتا۔(فتاوی رضویہ ۵/۴۴۰۔۴۴۱)
Flag Counter