نصاب اصول حديث مع افاداتِ رضویہ |
''کَانَ رَجُلٌ مِّنَ الْاَنْصَارِ یَجْلِسُ اِلٰی رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَیَسْمَعُ مِنْہُ الْحَدِیْثَ فَیُعْجِبُہ، وَلَا یَحْفَظُہُ فَشَکَا
ترجمہ : ''انصار میں سے ایک آدمی حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حاضرہوتاپھرآپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے ارشادات سنتااور خوش ہوتااور
ذٰلِکَ اِلٰی رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ''اِسْتَعِنْ بِیَمِیْنِکَ وَأَوْمَأَ بِیَدِہٖ اِلَی الْخَطِّ''
انہیں یاد نہ رکھ سکتا تو اس نے سرکار صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بارگاہ میں اس بات کی شکایت کی توآپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اپنے دائیں ہاتھ سے مدد لواور ساتھ ہی اپنے دست مبارک سے لکھنے کا اشارہ فرمایا''۔ ایک اور حدیث نقل کرتے ہوئے امام ترمذی فرماتے ہیں،صحابہ کرام حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے پاس بیٹھ کر احادیث لکھا کرتے تھے،ان میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:
''مَا مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ أَکْثَرُ حَدِیْثاً مِنِّیْ اِلاَّ مَا کَانَ مِنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ فَاِنَّہُ کَانَ یَکْتُبُ وَلَا أَکْتُبُ''
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ کے سواء صحابہ کرام میں سے کوئی بھی مجھ سے زیادہ احادیث محفوظ کرنے والا نہیں کیونکہ وہ احادیث لکھاکرتے تھے اورمیں نہیں لکھتاتھا۔ (جامع ترمذی) لہذا معلوم ہوا کہ تدوین حدیث کا سلسلہ سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے عہد مبارک ہی سے جاری ہوااور سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے بذات خود اس کی اجازت مرحمت فرمائی۔ صحابہ