رفیق نے بھی توبہ کرلی ہے اور نیکیوں میں مشغول ہوگیا ہے لہٰذا اب اُس کی اپنے رب عَزَّ وَجَلَّ سے صُلح ہوچکی ہے۔اسے یہاں لے آؤ اور تم سب یہیں نہر کے کَنارے عبادت کرو۔ ‘‘ اُنہوں نے اپنے رفیق کو خوش خبری دی اور پھر یہ سب مل کر وہاں مَشغولِ عبادت ہوگئے حتّٰی کہ اُس شخص کا وہیں انتِقال ہوگیا۔اِس پر نہر کی صدائیں گونج اُٹھیں : ’’ اے نیک بندو! اسے میرے پانی سے نَہلاؤ اور میرے ہی کَنارے دفناؤ تاکہ بروزِ قِیامت بھی وہ یہیں سے اُٹھایا جائے۔ ‘‘ چُنانچِہ اُنہوں نے ایسا ہی کیا۔رات کو اُس کے مزار کے قریب اللہ عَزَّ وَجَلَّکی عبادت کرتے کرتے سوگئے ۔ صُبح ان سب کا وہاں سے کُوچ کرنے کا ارادہ تھا ۔جب جاگے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اس کے مَزار کے اَطراف میں 12سَرْوْ ( یعنی ایک درخت جو سیدھا اور مخروطی (یعنی گاجر کی) شکل کا ہوتا ہے) کے خوبصورت قد آور درخت کھڑے ہیں ۔ یہ لوگ سمجھ گئے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّنے یہ ہمارے لئے ہی پیدا فرمائے ہیں ،تاکہ ہم کہیں اور جانے کے بجائے ان کے سائے میں ہی پڑے رہیں ۔چُنانچِہ وہ لوگ وَہیں عبادت میں مشغول ہوگئے ۔جب ان میں سے کسی کا انتِقال ہوتا تو اُسی شخص کے پہلو میں دَفْن کیا جاتا۔حتّٰی کہ سب وفات پاگئے ۔بنی اسرائیل اُن کے مزرات کی زیارت کیلئے آیاکرتے تھے رَحمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی اَجْمَعِیْن (کتابُ التَّوّابِین ص۹۰)
اللہ عَزَّ وَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد