انداز پر سَر ہلائیں جس سے حالت کا خراب ہونا سمجھا جاتا ہی٭عیادت کے موقع پر مریض یادُکھی شخص کے سامنے اپنے چِہرے پر رنج و غم کی کیفیت نُمایاں کیجئے ٭بات چیت کا انداز ہرگز ایسا نہ ہو کہ مریض یا اُس کے عزیزکو وَسوَسہ آئے کہ یہ ہماری پریشانی پر خوش ہو رہا ہے! ٭مریض کے گھروالوں سے بھی اظہار ِہمدردی کیجئے اور جو خدمت یا تعاوُن کر سکتے ہوں کیجئیے٭مریض کے پاس جاکر اُس کی طبیعت پوچھئے اور اُس کے لیے صحّت وعافیت کی دُعا کیجئیے٭ نبیِّ رَحمت،شفیعِ اُمّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی عادت کریمہ یہ تھی کہ جب کسی مریض کی عِیادت کو تشریف لے جاتے تو یہ فرماتے: لَا بَأسَ طَہُوْرٌ اِنْ شَائَ اللّٰہُ (1) (بخاري ج۲ ص ۵۰۵ حدیث ۳۶۱۶) ٭مریض سے اپنے لیے دُعا کروائیے کہ مریض کی دُعا رَد نہیں ہوتی ٭ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ: مریض کی پوری عِیادت یہ ہے کہ اُس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر پوچھے کہ مزاج کیسا ہے ؟ (ترمذی ج۴ص۳۳۴حدیث۲۷۴۰) ٭مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّاناس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : یعنی جب کوئی شخص کسی بیمار کی مزاج پرسی کرنے جاوے تو اپنا ہاتھ اُس کی پیشانی پر رکھے پھر زَبان سے یہ (یعنی آپ کی طبیعت کیسی ہے) کہے، اِس سے بیمار کو تَسلّی ہوتی ہے، مگر بَہُت دیر تک ہاتھ نہ رکھے رہے، یہ ہاتھ رکھنا اظہار ِمَحَبَّت کے لیے ہے (مراٰۃ ج۶ص ۳۵۸ بِتَصَرُّفٍ) ٭ مریض کے سامنے ایسی باتیں کرنی چاہئیں جو اس کے دل کو بھلی معلوم ہوں ، بیماری کے فضائل اور اللہ عَزَّ وَجَلَّکی رَحمت کے تذکرے کیجئے تاکہ اس کا ذِہن ثوابِ آخِرت کی طرف مائل ہو
________________________________
1 - ترجمہ: کوئی حَرَج کی بات نہیں تَعَالٰی نے چاہا تو یہ مَرض (گناہوں سے) پاک کرنے والا ہے۔