گول پہاڑ ہے وہاں مسلمانوں کی ’’ امانَتیں ‘‘ ہیں ، وہاں تشریف لے جائیے، اگرآپ کی بھی وہاں کوئی امانت ہو ئی توَّ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ رِہائی کی کوئی صورت نکل آئے گی ۔ ‘‘ میں گول پہاڑ پر پہنچا، وہاں دَریچے بنے ہوئے تھے ، ان دَریچوں پر ریشمی پر دے لٹک رہے تھے، دروازے سونے کے تھے اور ان میں موتی جَڑے ہوئے تھے۔ فرِشتے اعلان فرمانے لگے : ’’پردے ہٹادو ‘‘ درواز ے کھول دو ، شاید اِس پریشان حال کی کوئی ’’ امانت ‘‘ یہاں موجود ہو، جو اِسے سانپ سے بچالے۔ ‘‘ دریچے کُھل گئے اور بَہُت سارے بچّے چاند سے چِہرے چمکاتے جھانکنے لگے، ان ہی میں میری فوت شدہ دو سالہ بچّی بھی تھی، مجھے دیکھ کروہ رو رو کر چِلّانے لگی: ’’ خدا کی قسم ! یہ تو میرے ابّوجان ہیں ، ‘‘ پھر زوردار چھلانگ لگا کر وہ میرے پاس آپہنچی اور اپنے بائیں ہاتھ سے میرادایاں ہاتھ تھا م لیا۔ یہ دیکھ کر وہ قد آور سانپ پلٹ کر بھاگ کھڑا ہوا، اب میری جان میں جان آئی، بچّی میری گود میں بیٹھ گئی اور سیدھے ہاتھ سے میری داڑھی سَہلاتے ہوئے اُس نے پارہ 27 سُوْرَۃُ الْحَدِیْدکی16ویں آیت کا یہ جُز تلاوت کیا:
اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّۙ-ترجَمۂ کنزُالایمان : کیا ایمان والوں کو ابھی وہ وقت نہ آیا کہ انکے دل جھک جائیں اللہ عَزَّ وَجَلَّکی یاد اور اس حق (یعنی قرآن پاک)کیلئے جو اترا ۔
اپنی بچّی سے یہ آیتِ کریمہ سن کر میں رو پڑا ۔ میں نے پوچھا: بیٹی وہ قد آور سانپ کیا بلا تھی؟ کہا: وہ آپ کے بُرے اعمال تھے جن کو آپ بڑھاتے ہی چلے جارہے ہیں ۔قد آور سانپ نُما