اب تو اَمن ہے پھر بھی قَصر کیوں ؟
صدرُ الافاضل حضرتِ علّامہ مولاناسیِّد محمد نعیم الدین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِیفرماتے ہیں : خوفِ کفارقصرکے لئے شرط نہیں ۔حضرتِ (سیِّدُنا ) یعلٰی بن اُ میہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے حضرتِ (سیِّدُنا ) عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے عرض کی کہ ہم تو امن میں ہیں ، پھرہم کیوں قصرکر تے ہیں ؟ فرمایا: اس کا مجھے بھی تعجب ہوا تھا تو میں نے سیِّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے دریافت کیا ۔ حضورِ اکر م صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’ تمہارے لئے یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّکی طرف سے صَدَقہ ہے تم اس کا صدقہ قبول کر و۔ ‘‘ (مُسلِم ص۳۴۷حدیث۶۸۶، خزائن العرفان ص۱۸۵)
پہلے چار نہیں بلکہ دو رکعتیں ہی فرض کی گئیں
اُمُّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتنا عائِشہ صِدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا رِوایت فرماتی ہیں : نَماز دورَکعَت فرض کی گئی پھرجب سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہجرت فرمائی تو چار فرض کی گئی اور سفر کی نَماز اُسی پہلے فرض پر چھوڑی گئی ۔ (بُخاری ج۲ص۶۰۴حدیث۳۹۳۵)
حضرتِ سیِّدُنا عبداللّٰہ بن عبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اور حضرتِ سیِّدُناعبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے کے حبیب ، حبیبِ لبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نَمازِ سفر کی دو رکعتیں مقرر فرمائیں اور یہ پوری ہے کم نہیں ۔ ( اِبنِ ماجہ ج۲ ص۵۶ حدیث ۱۱۹۴) یعنی اگر چِہ بظاہردو رکعتیں کم ہو گئیں مگر ثواب میں دو ہی چار کے برابر ہیں ۔